تحریر:سوتک بسواس
گذشتہ تین ماہ سے ہر جمعے کو انتہائی دائیں بازو کے ہندو گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد باقاعدگی سے دارالحکومت نئی دہلی کے پوش علاقے گڑگاؤں میں جمع ہوتے ہیں جہاں ان کا مقصد عوامی مقامات پر نماز پڑھنے والے مسلمانوں کو روکنا ہوتا ہے۔ ان افراد کا واضح مطالبہ ہے کہ مسلمانوں پر اُن تمام خالی پلاٹوں، پارکنگ لاٹس اور رہائشی مقامات کے نزدیک کھلی جگہوں پر نماز پڑھنے پر پابندی عائد کی جائے جہاں وہ برسوں سے اپنی عبادات کرتے آئے ہیں۔
یہ افراد جمع ہو کر نعرے بازی کرتے ہیں، داخلی راستوں پر گاڑیاں کھڑی کر کے انھیں بند کر دیتے ہیں، نمازیوں پر جملے کستے ہیں اور انھیں ’جہادی‘ اور ’پاکستانی‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔
اب کچھ عرصے سے یہ نماز پولیس کے پہرے میں ادا کی جا رہی ہے۔ گڑگاؤں مسلم کونسل کے شریک بانی الطاف احمد نے اس بارے میں کہا کہ ’یہ بڑی ڈراؤنی صورتحال ہے اور انھیں کبھی یہ امید نہیں تھی کہ گڑگاؤں میں ایسا ہوگا۔‘
نئی دہلی سے کوئی 15 میل جنوبی میں واقع گڑگاؤں کا علاقہ کبھی متعدد چھوٹے چھوٹے دیہات پر مشتمل ہوتا تھا لیکن گذشتہ تین دہائیوں میں یہ ایک تیزی سے ترقی کرتا ہوا کاروباری علاقہ بن چکا ہے۔
جدید نوعیت کی اونچی اونچی عمارتوں اور پرتعیش مصنوعات کی دکانوں سے بھرے اس علاقے کو حکام ’ملینیم سٹی‘ کہنا پسند کرتے ہیں اور یہاں اب دس لاکھ سے زیادہ افراد رہائش پذیر ہیں جو مختلف نوعیت کی نوکریاں کرتے ہیں۔ کچھ اندازوں کے مطابق یہاں رہنے والوں میں سے تقریباً پانچ لاکھ افراد مسلمان ہیں جو مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
لیکن گڑگاؤں خلافِ امکان آج ایک ایسا مقام بن کر ابھرا ہے جہاں نماز کے معاملے پر مذہبی نوعیت کا تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔
مظاہرے کرنے والے ہندو گروہ کے رہنماؤں میں سے ایک کلبھوشن بھردواج نے اس معاملے پر کہا کہ وہ نماز یا مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں لیکن کھلے مقامات پر نماز پڑھنا ’زمین کا جہاد‘ ہے۔
دوسری جانب مسلمان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ’مسلمان جہاں نماز پڑھ رہے ہیں وہ ادھر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘
ماضی میں بھی ہندو قوم پرستوں نے مسلمانوں کو ’لوو جہاد‘ کے نام پر نشانہ بنایا تھا۔ یہ ایک دائیں بازو کے گروہوں کی جانب سے متعارف کروایا گیا سازشی خیال تھا جس میں مسلمان مردوں پر الزام لگایا گیا کہ وہ ہندو عورتوں سے شادی کر کے ان کا مذہب تبدیل کروا رہے ہیں۔
ان ہندو مظاہرین نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ تقریباً دو درجن ہندو قوم پرست گروہ پر مشتمل ایک مشترکہ گروپ کا حصہ ہیں جسے سنیوکت ہندو سنگ ہرش کا نام دیا گیا ہے اور اس میں شامل افراد میں زیادہ تر کا تعلق ان غنڈوں کے گروپ سے ہے جو بے روز گار نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 2014 سے انڈیا پر حکمرانی کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جی پی) ان ہندو قوم پرست گروہوں کو ’روایتی طور پر تحفظ‘ دیتی آئی ہے۔
پولیٹکل سائنسدان کرسٹوفر جیفلوٹ لکھتے ہیں کہ ان قوم پرست گروہوں کا مقصد یہ رہا ہے کہ وہ ’اخلاقی اور سماجی نگرانی‘ کریں تاکہ قوانین کے بجائے ان ’ثقافتی اور معاشرتی رسم و رواج‘ کو نافذ کیا جائے۔لیکن گڑگاؤں میں جو احتجاج ایک غیر منظم طریقے سے شروع ہوا، اب اس نے ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کر لی ہے اور اب وہاں کے مقامی لوگوں نے بھی ان مظاہروں کی حمایت کا آغاز کر دیا ہے۔
وہاں رہنے والے ایک شہری سنیل یادیو نے کہا کہ انھیں اچھا نہیں لگتا جب مسلمان ان کے گھر کے نزدیک اس طرح سرعام نماز پڑھیں۔ ’ہمیں خوف آتا ہے۔ نماز کے بعد وہ وہاں پھر رہے ہوتے ہیں۔‘ سنیل نے حال ہی میں ایک مظاہرے میں شرکت کی تھی جس میں انھوں نے اپنے گھر کے نزدیک ایک 36 ایکڑ رقبے پر قائم خالی پلاٹ پر نماز کی ادائیگی کامیابی سے رکوا دی تھی۔
گذشتہ ہفتے مظاہرین کو بظاہر سرکاری حمایت بھی مل گئی جب بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ریاست ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے بیان دیا کہ ’عوامی مقامات پر نماز پڑھنا قابل قبول نہیں ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ تصادم ہے، اور ہم اس کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
عوامی مقامات پر نماز پڑھنے پر احتجاج سب سے پہلے 2018 میں شروع ہوا۔ بعد میں مذاکرات کے بعد مسلمان شہریوں نے اس بات پر ہامی بھر لی کہ وہ 108 مقامات کے بجائے 37 مقامات پر نماز ادا کریں گے۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس سال یہ احتجاج دوبارہ کیوں شروع ہوئے ہیں۔ اس بار کیے گئے مذاکرات کے مطابق نماز ادا کرنے کے 20 مقامات پر اتفاق ہوا ہے لیکن ان پر ابھی بھی تنازع چل رہا ہے۔
گڑگاؤں میں مسلمان تقریباً دو دہائیوں سے عوامی مقامات پر نماز ادا کر رہے ہیں۔ اس تنازعے کی مرکزی وجہ ہے کہ نمازیوں کے لیے جگہ کی کمی پڑ گئی ہے۔
پولیٹکل اسلام کے ماہر ہلال احمد نے اس بارے میں کہا کہ احتجاج کرنے والے یہ افراد ایک بلدیاتی مسئلے کو استعمال کرتے ہوئے مذہبی نوعیت کا انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’یہ لوگ مسلمانوں کو کہہ رہے ہیں کہ مساجد جا کر نماز ادا کریں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اتنی مساجد ہی نہیں ہیں۔‘
گڑگاؤں میں کُل 13 مساجد ہیں جن میں سے صرف ایک علاقے کے قدرے نئے تعمیر شدہ حصے میں ہے، جہاں زیادہ تر نقل مکانی کر کے رہنے والے افراد رہائش پذیر ہیں۔
مسلمانوں کی جائیدادوں کی نگرانی کرنے والے بورڈ کے ایک مقامی اہلکار جمال الدین نے کہا کہ جس علاقے میں مسلمانوں کی زمینیں ہیں وہ بہت دور دراز ہیں اور وہاں پر مسلمانوں کی آبادی بھی بہت کم ہے۔انھوں نے بتایا کہ اُن علاقوں میں 19 مساجد تھیں جنھیں اسی وجہ سے بند کر دیا گیا کہ وہاں نمازیوں کی کمی تھی اور گڑگاؤں میں دستیاب زمین بورڈ کی قوت خرید سے باہر ہے۔
گڑگاؤں کی مسلم کونسل کا کہنا ہے کہ گڑگاؤں میں شہری منصوبہ بندی کرنے والے حکام نے علاقے میں صرف ایک مسجد تعمیر کی لیکن 42 سے زیادہ مندروں اور 18 گرودواروں کے لیے جگہ مختص کی ہے۔
پانچ سال قبل مسلمانوں کے دو ٹرسٹ اداروں نے مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی زمین خریدنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے۔
گڑگاؤں میں جو آج ہو رہا ہے اس میں 2011 میں لگائی گئی ایک پابندی کی بازگشت سنائی دیتی ہے جب فرانس کے دارالحکومت پیرس میں دائیں بازو کی جانب سے کیے گئے مظاہروں کے نتیجے میں سڑک پر نماز پڑھنے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
اور اس وقت بھی وجہ یہی تھی: مسلمانوں کے پاس مساجد میں جگہ کی کمی۔
بعد ازاں دو مقامی مساجد سے معاہدے کے بعد دو غیر استعمال شدہ بیرکوں کو نماز پڑھنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
اس واقعے کے چھ سال بعد پیرس کے مضافات میں اس سے ملتا جلتا ایک اور مظاہرہ ہوا جس میں عبادت گزاروں نے کہا کہ جس قصبے میں وہ رہتے ہیں وہاں کی انتظامیہ نے نماز کی جگہ پر قبضہ کر لیا تھا۔لیکن انڈیا میں مذہب ہمیشہ عوامی مقامات پر کسی نہ کسی شکل میں آ جاتا ہے۔چاہے وہ سالانہ مذہبی تقریبات ہوں یا کوئی جلسے جو ٹریفک کی روانی کو متاثر کرتے ہیں یا کبھی کبھی سڑکیں مکمل طور پر بند کروا دیتے ہیں ۔لیکن بھارت کی سیکولر ریاست ہونے کی ساکھ کو حالیہ سالوں میں سخت خطرے کا سامنا ہے۔
تاہم گڑگاؤں میں ابھی بھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے۔ ایک ہندو کاروباری شخص نے مسلمانوں کے لیے اپنی دکان کھول لی ہے تاکہ وہ وہاں پر جمعے کی نماز ادا کر سکیں۔
پچھلے مہینے سکھ گرودواروں کے منتظمین کی جانب سے بھی ایسا ہی اعلان کیا گیا تھا لیکن ہندو گروہوں نے اس پر شدید احتجاج کیا تو ان کو وہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔
پیو ریسرچ سینٹر کے ایک نئے سروے میں بتایا گیا ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت یہ مانتی ہے کہ ’حقیقی معنوں میں انڈین‘ ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام مذاہب کا احترام کیا جائے۔
اس وقت گڑگاؤں میں مسلمان پریشان ہیں اور اضطراب کا شکار ہیں۔ کئی لوگوں کو خطرہ ہے کہ اگر وہ جمعے کو نماز پڑھنے کے لیے کام سے رخصت لیں تو ان کے پیسے کاٹے جا سکتے ہیں کیونکہ نماز پڑھنے کے لیے انھیں دور دراز جانا پڑتا ہے۔ ہلال احمد کہتے ہیں: ’ہم مسلسل اپنی تذلیل کیے جانے کے ڈر و خوف کی کیفیت میں رہتے ہیں۔‘
(بشکریہ: بی بی سی:یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں )