نئی دہلی :
چار دن پہلے کانپور میں ایک اخبار نے لکھا تھا ، بھیرو (شمشان) گھاٹ میں 24 گھنٹے میں 476 لاشوں کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔ اگلے ہی دن کانپور کے ضلع مجسٹریٹ نے بتایا کہ صرف تین اموات ہوئیں ہیں۔ عوام میڈیا کی بات مانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ انتظامیہ ہمیشہ ہی اموات کو چھپاتی ہے۔ ادھر ملک کے دیگر اخبارات اور غیر ملکی اخبارات جیسے نیو یارک ٹائمز اور گارجین بھی کورونا سے اموات چھپانے کی بات کر رہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز نے مشی گن یونیورسٹی کے پروفیسر بھرمر چٹرجی سے بات کی۔ وبائی امراض کے اس ماہر کا کہنا ہے کہ بھارت میں اعداد و شمار کا قتل عام جاری ہے۔ ہندوستانی نژاد چٹرجی کورونا مدت کے دوران ہندوستان میں جاری سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق مرنے والوں کی اصل تعداد سرکار کی بتائی تعداد سے دوگنی اور یہاں تک کہ پانچ گنی بھی ہوسکتی ہے۔
اس امریکی اخبار نے احمد آباد کے شمشان گھاٹ میں کام کرنے والے سریش سے بھی بات کی۔ سریش نے بتایا کہ اس نے مردہ کی اتنی لمبی لائن کبھی نہیں دیکھی۔ وہ متوفی کے لواحقین کو آخری رسومات کا سرٹیفکیٹ بھی دیتا ہے،کسی بھی سرٹیفکیٹ میں موت کی کوئی واضح وجہ نہیں ہے۔ سب میں صرف ایک ہی چیز لکھی ہے: ’بیماری ہی موت کا سبب ‘۔ سریش خود بیماری کا لفظ لکھتا ہے۔ گمنام بیماری۔
اخبار نے اسی طرح کی معلومات مرزا پور ، لکھنؤ اور بھوپال سے دی ہے، ایسی ہی ایک کہانی احمد آباد کی ہے۔ روپل ٹھاکر کووڈ پازیٹوتھی۔ شالبی اسپتال میں بھرتی کرائی گئی۔ 16 اپریل کو آکسیجن کا لیول گر گیا اور وہ بچائی نہ جاسکیں۔ اسپتال نے سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے: ’اچانک حرکت قلب بند ہونے کے سبب موت‘ ہوگئی۔