تحریر: اوریا مقبول جان
جلسے، جلوس، ریلیاں، احتجاج اور ان کے نتیجے میں پھوٹ پڑنے والے ہنگامے اور ان ہنگاموں میں اِملاک کو نذرِ آتش کرنا، مخالفین کو قتل کرنا، مار مار کر اَدھ مواء کر دینا اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد فتح و نصرت کے شادیانے بجانا، یہ سب چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ کا کبھی حصہ نہیں رہا۔ یہ رویہ اور یہ طرزِ عمل اس جدید دُنیا کو جمہوری نظام کا تحفہ ہے۔ قدیم بادشاہتوں میں بھی عوامی ردّعمل کی یہ صورت کبھی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی لوگوں کے جمِ غفیر نے کبھی اس طرح عدالتیں لگا کر فیصلے سنائے تھے۔ یہ سب کچھ جمہوری مزاج کا حصہ ہے، جس کے خطرناک نتائج سے ڈھائی ہزار پہلے یونان کے فلسفی سقراط نے آگاہ کیا تھا۔ اس کی وہ تقریر، جمہوریت اور ہجوم کی سیاست پر، ایک بسیط تبصرہ ہے، جو اس نے اس عدالت کے روبرو کی تھی جس میں اس کا مقدمہ چل رہا تھا۔ انسانی تاریخ میں ہجوم کی یہ پہلی عدالت تھی جو برسرِعام لگائی گئی۔
ایتھنز شہر کا ہر فرد ہجوم کی صورت اس عدالت کا حصہ تھا۔ ایک بہت بڑے سٹیڈیم میں جمع ہونے والے اس ہجوم کے سامنے سقراط تنہا کھڑا تھا۔ سقراط کی اس ہجوم کے سامنے تقریر کو اس کے شاگرد افلاطون (Plato) نے اپنی کتاب ’’سقراط کا معذرت نامہ‘‘ (Apology of Socrates) میں اور ایتھنز کی افواج کے کمانڈر زینو فون (Xenophon) نے اپنی کتاب ’’عدالت کے سامنے سقراط کا معذرت نامہ‘‘ (Apology of Socrates to the Jury) میں آنے والی صدیوں کیلئے محفوظ کر دیا ہے۔ سقراط نے کہا، ’’میرا فیصلہ ایک ہجوم کر رہا ہے اور ہجوم کبھی درست فیصلہ نہیں کر سکتا‘‘۔ اس نے کہا، ’’اے ایتھنز والو! میں تمہای عزت کرتا ہوں۔ مجھے تمہارا احترام ہے، لیکن میں تم سب کے مقابلے میں خدا کی اطاعت کروں گا‘‘۔ جس دَور میں ایتھنز میں جمہوریت اپنے عروج پر تھی اور شہری ریاستوں کا آئیڈیل جمہوری نظام نافذالعمل تھا، سقراط اس وقت بھی اس جمہوری نظام کے خلاف سراپا احتجاج تھا۔ افلاطون کی کتاب ’’الجمہوریہ ‘‘ (The Republic) جو سقراط کی مختلف افراد سے گفتگو پر مبنی ہے، اس کے چھٹے حصے میں وہ ایک شخص ایڈیمنٹس (Adeimantus) سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ’’معاشروں کی مثال ایک سمندری جہاز کی طرح ہوتی ہے تم اس جہاز کو یقیناً کسی ایسے شخص کے حوالے کرو گے جو جہاز رانی کے فن کو جانتا ہو۔ ایک جاہل، اَن پڑھ اور گنوار شخص کو ووٹ کا حق دینا بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک یونانی جہاز (Trireme) جو طوفان کی حالت میں سموس (Samos) جزیرے کی سمت جا رہا ہو، اور اس کی قیادت ایک نااہل شخص کے سپرد کر دی جائے‘‘۔
پانچ سو افراد جو ایتھنز کے شہری تھے، ان کی سقراط کے خلاف لگائی گئی عوامی عدالت نے جب اسے سزائے موت سنائی تو وہ مسکرایا اور اس نے کہا، ’’وقت آ رہا ہے کہ میں تو مر جائوں گا مگر تم زندہ رہو گے، لیکن ان دونوں میں سے کون سی بات بہتر ہے، صرف خدا جانتا ہے۔ آوازِ ربّانی نے مجھے نہیں ٹوکا، یقین جانو، میری موت کے بعد تمہیں سخت سزا ملنے والی ہے‘‘۔ عدالت جسے سقراط نے ہجوم قرار دیا تھا، اس کے فیصلے کے مطابق اسے جیل میں بند کر دیا گیا۔ دوست اسے بھاگنے کا مشورہ دیتے رہے لیکن وہ مقررہ وقت کے مطابق تیس دن بعد زہر کا پیالہ ہونٹوں کو لگا لیتا ہے۔جمہوریت اور اس سے جنم لینے والے ہجوم کے تصورِ انصاف سے سقراط نے ڈھائی ہزار سال پہلے خبردار کیا تھا۔ یونان کی شہری ریاستوں کی جمہوریت کو تو اسپارٹا کے جرنیلوں نے ختم کر دیا، لیکن جدید فلسفی اس کی جمہوری راکھ سے ’’عوام کی حاکمیت‘‘ کی چنگاری اُٹھا لائے اور اس سے موجودہ جمہوری نظام تخلیق کیا گیا، جس نے دُنیا بھر کے معاشرتی خرمن کو آگ دکھا دی۔
سقراط ایتھنز والوں سے بار بار پکار کر کہتا رہا کہ عوام کے جمِ غفیر کے مقابلے میں اس ایک شخص کی رائے بھی زیادہ محترم اور معزز ہے جو جانتا ہو، علم رکھتا ہو یا جسے خدا نے حقائق سے آگاہ کیا ہو، آج کا جمہوری نظام سقراط کی اس وارننگ کے بالکل برعکس انہی عوامی بنیادوں پر استوار ہے، مگر پورے انسانی معاشرے میں کوئی ایک بھی سقراط موجود نہیں جو اس ’’عوامی جہالت‘‘ کے سامنے کھڑا ہو جائے۔ ’’عوامی جہالت‘‘ جب رائے میں تجسیم ہوتی ہے تو پھر جاہل حکمران جنم لیتے ہیں اور ان جاہل حکمرانوں کے مقابلے میں بھی جاہل مخالفین ہی پیدا ہوتے ہیں، جنہیں ’’اپوزیشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک کے ہاتھ میں ریاست کی قوت ہوتی ہے اور دوسرے کے ہاتھ میں ہجوم کی قوت۔ ’’ریاست کی طاقت‘‘ اور ’’ہجوم کی قوت‘‘ کی کشمکش سے ساری جمہوری سیاست عبارت ہے۔ ریاست کمزور ہو تو ہجوم جیتتا ہے، اور ریاست طاقتور ہو تو ہجوم کی شکست ہوتی ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)