تحریر: یوسف کرمانی
یوکرین کے دارالحکومت کیف اور کھارکیو میں بم برس رہے ہیں۔ روسی فوجیں پیش قدمی کر رہی ہیں۔ ہندوستانی طلباء نے بنکروں میں پناہ لے رکھی ہے۔ کھانے -پینے کا بحران ہے۔ ہندوستانی ٹی وی اور پرنٹ میڈیا بتا رہا ہے کہ ان حالات میں حکومت ہند اور ہندوستانی سفارت خانے ہندوستانی طلباء کو وہاں سے ملک مفت میں واپس لا رہی ہے۔ لیکن سچائی اس کے برعکس ہے۔ سچائی جان کر تمام لوگوں کو دھکا لگے گا۔ ستیہ ہندی نے کل جن اسٹوڈنٹس سے کیف ،کھارکیو ،اوڈیسا اور دیگر شہروں میں بات کی، آج پھر ان سے بات کی۔ وہاں پھنسے طلباء نے ہندوستانی سفارتخانے کے رویہ پر افسوس کا اظہار کیا۔
ہندوستانی وزارت خارجہ نے کل اعلان کیا تھاکہ ہندوستانی حکومت ہنگری، پولینڈ اور رومانیہ کی سرحدوں پر پہنچنے والے طلباء کو مفت لانے کے انتظامات کر رہی ہے۔ اس کے بعد بھارتی میڈیا کو بتایا گیا کہ رومانیہ سے پہلی پرواز آج بھارت کیسے پہنچ رہی ہے۔ لیکن حقیقت سن کر آپ حیران رہ جائیں گے۔
کئی طلباء نے فون پر ستیہ ہندی کو بتایا کہ جو طلباء اپنے ذمہ داری پر رومانیہ-پولینڈ سرحد پر پہنچے انہیں کہا گیا کہ انہیں یہاں سے واپسی کے لئے ایک ایک ہزار امریکی ڈالر ادا کرنے ہوں گے، جن کے پاس پیسے تھے، انہوں نے فوراً پیسے دیے اور فلائٹ لے لی، لیکن جو طلباء حکومت ہند کی مفت لانے کی اسکیم پر بھروسہ کرکے آئے تھے ، وہ اب بھی وہاں گڑگڑا رہے ہیں لیکن ہندوستانی سفارت خانے کے اہلکار ان کو بھیجنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ ان سے پہلے ایک ہزار ڈالر مانگ رہے ہیں۔ کئی طلباء اب بھی پولینڈ، رومانیہ اور ہنگری کی سرحدوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔
کھارکیو میں پھنسے ہوئے ہندوستانی طالب علم نمیش چاولہ نے انڈر گراؤنڈمیٹرو بنکر سے ہندوستانی سفارت خانے سے فون پر بات کی۔ اس گفتگو کی ریکارڈنگ ستیہ ہندی کے پاس دستیاب ہے۔ نمیش چاولہ نے ہندوستانی سفارت خانے میں فون کیا اور پوچھا کہ یہاں سے مشرقی علاقے میں پھنسے ہوئے ہم طلبہ کو نکالنے کا کیا انتظام ہے۔ سفارت خانے کے اہلکار نے نمیش چاولہ کو بتایا کہ جو لوگ سرحد پر پہنچ چکے ہیں انہیں لے جانے کا نظام موجود ہے۔ اس پر نمیش نے کہا کہ کھارکیو سے سرحد ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ دور ہے، ہم وہاں کیسے پہنچیں گے، افسر نے کہا کہ ہم کیا کریں، آپ اسے دیکھیں۔ نمیش نے کہا کہ ہم لوگ کیا اسی بنکر میں اپنی نیند حرام کرتےرہیں، سفارت خانے کےاہلکارنے کہاکہ بالکل یہی کرو۔ نمیش نے کہاکہ سرکار نے کہا تھا کہ 23 فروری کو یہاں سے تمام کو نکال لیں گے، اس کا کیا ہوا۔ اہلکار نے کہاکہ وہ پرانی بات تھی۔ نئی صورت حال کچھ اور ہے ۔ اس کے بعد دونوں کی بات چیت بحث میں بدل جاتی ہے۔ ہندوستانی سفارت خانے کے اہلکار کا کل ملاکر یہ کہنا تھا کہ ہمیں کچھ بھی نہیں معلوم ۔
ستیہ ہندی نے کیف میں پھنسے ایک طالب علم پنکج سے آج پھر بات کی۔ پنکج نے بتایا کہ کیف میں حالات خراب ہوتے جارہے ہیں۔ چند کلومیٹر دور سے بموں کی آوازیں آرہی ہیں۔ ہمارے پاس اب دو تین دن کا راشن اور پانی ہے۔ ہم رات بنکر میں گزار رہے ہیں۔ ہم یہاں پانچ لوگ ہیں، کچھ اور طالب علم ہمارے ساتھ رہنے آ رہے ہیں۔ ہمیں حکومت ہند سے کافی توقعات وابستہ ہیں۔ یہاں پھنسے طلبہ کے ساتھ حکومت کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہمارے ساتھیوں سے جو ہنگری، رومانیہ، پولینڈ کی سرحد پر پہنچ چکے ہیں ان سے ایک ہزار ڈالر کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ہمارے بہت سے دوستوں کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ تاہم حکومت ہند نے کل کہا تھا کہ ہندوستان آنے والے طلبہ کو مفت لایا جائے گا۔ جنہوں نے پہلے ٹکٹ بک کرائے تھے، وہ ٹکٹ مہنگے کر دیے گئے۔ اب جب طلباء اپنے خرچے سے سرحد پر پہنچے تو ان سے ایک ایک ہزار ڈالر مانگے گئے۔ ہم بہت مایوس ہیں۔
رومانیہ کی سرحد پر پھنسے للت چوہان نامی ہندوستانی طالب علم کی یہ انسٹاگرام پوسٹ وہاں کی صورتحال کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ للت چوہان بتا رہے ہیں کہ کیسے ان سے رومانیہ کی سرحد پر ہندوستان لے جانے کے لیے پیسے مانگے جا رہے ہیں۔
ستیہ ہندی نے کل مکیش کمار سے بھی بات کی۔ مکیش نے آج بتایا کہ ہم لوگوں کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ ہم میں سے جتنے بھی طالب علم اب تک الگ الگ رہ رہے تھے، اب سب ایک ہی جگہ ہاسٹل میں اکٹھے رہنے والے ہیں۔ جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔ کم از کم سب ایک ساتھ ہوں گے۔ ہمیں حکومت ہند یا ہندوستانی سفارت خانے سے کسی قسم کی مدد نہیں مل رہی ہے۔ سفارت خانے کے لوگ سرحد کے قریب مغربی علاقے میں ہیں، جب کہ ان کے افسران اور دفاتر کو مشرقی یوکرین میں بھی ہونا چاہیے تھا۔
ہندوستان واپس آنے والا طالب علم جسکرن سنگھ یوکرین میں پھنسے اپنے دوستوں سے پریشان ہے، جسکرن نے بتایا کہ ہمارے دوست انسٹاگرام اور ٹوئٹر پر اپنا دکھ لکھ رہے ہیں جسے پڑھ کر پریشان ہو رہاہوں۔
(بشکریہ : ستیہ ہندی )