وسیع الر حمٰن عثمانی
دہلی گیٹ قبرستان آنے والے سالوں میں تدفین کے لئے بند ہوجائے گا ؟۔کورونا کی تیسری لہر خدانخواستہ آئی تو مسلم میتوں کو دفنانے کے لئے لوگ مارے مارے پھریں گے۔ یوں تو دہلی میں درجنوں قبرستان ہیں لیکن ان کی حالت بہت اچھی نہیں ہے۔ مہندیان اور پنچ پیران جیسے قبرستان عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں وہاں کی تدفین فیس غیرمعمولی ہوتی ہے۔ وہیں دہلی کے سب سے سستے جدید قبرستان اہل اسلام یعنی دہلی گیٹ قبرستان میں اب آنے والے سالوں میں تدفین کی زمین باقی نہیں رہے گی جس کی ایک وجہ تو کورونا سے ہونے والی اموات کی کثرت ہے، وہیں دوسری وجہ قبروں کو پکی کرنے کرانے کا سلسلہ ہے۔ایک زمانہ سے یہاں لوگ اپنے بڑے بزرگوں کی قبروں کو پکی کرانے کے لئے کمیٹی کو موٹی رقم دیتے آرہے ہیں،کچھ سال پہلےکمیٹی نے یہاں قبروں کو پکی بنانے کو ممنوع قرار دے دیا تھا جس کے بڑے بڑے اشتہار بھی یہاں چسپاں ہیں مگر یہ سلسلہ ان آفیشیل طور پر اب بھی جاری ہے۔
پکی قبروں کے سلسلہ میں بات کرنے سے پہلے ہم دہلی کے چند قبرستانوں کی بات کرلیں۔ دہلی کے نظام الدین میں واقع تکونہ قبرستان پر سرکاری ایجنسی کا قبضہ ہے۔ اسی طرح لودھی روڈ پر لال مسجد قبرستان کو سی آر پی ایف نے طاقت کے زور پر پہلے مسمار کیا پھر اس پر قبضہ کرلیا۔ملینم پارک قبرستان کا معاملہ بھی زیر سماعت ہے، جس کی وجہ سے یہاں بھی تدفین نہیں کی جاتیں۔ دوسرے نبی کریم قبرستان ،خواجہ باقی باللہ ، ویلکم،شاستری پارک اوربٹلہ ہاؤس کے قبرستانوں میں عام طور پر مقامی افراد کی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں یعنی جمنا پار والے ویلکم ،شاستری پارک میں مدفون کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اوکھلا کے لوگ بٹلہ ہاؤس میں اور مالدار فرم کے لوگ مہندیان اور پنج پیران میں موٹی رقم ادا کرکے قبریں حاصل کرلیتے ہیں۔ رانی جھانسی روڈ پر ایک قوم پنجابیان کا قبرستان واقع ہے جہاں صرف اسی قوم پنجابیان کے مسلمان ہی دفن کئے جاتے ہیں ۔عام مسلمان جن کے لئے دہلی گیٹ قبرستان واحد ایک ایسا قبرستان ہے جہاں کسی کو کبھی منع نہیں کیا گیا۔یہاں ہر مسلک ہر علاقہ کے لوگوں کی آخری رسومات ادا ہوتی آرہی ہیں، لیکن اب دہلی کے اس قدیم اور سب سے بڑے قبرستان میں جگہ کی کمی کا مسئلہ کھڑا ہو گیا جس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ قبروں کو پکی کرانا ہے جس کے لئے کمیٹی کے لوگ ذمہ دار ہیں جن سے سفارشیں کراکر یا کمیٹی کو فیس ادا کرکے لوگ قبریں پکی کراتے آرہے ہیں۔
دہلی میں اگر کورونا کی تیسری لہر آئی تو دہلی گیٹ قبرستان پوری طرح بھر جائے گا اور میتوں کی آخری رسومات کہاں ہوں گی اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔زیر نظر تصویر بہار کے ایک سابق ایم پی کی قبر کی ہے جس کو چاروں طرف سے باؤنڈی بناکر محفوظ کر دیا گیا ہے ۔یہ تصویر تومحض ایک مثال ہے آپ قبرستان جائیں کووڈ سے فوت ہونے والوں کی تدفین کے لئے جو حصہ مخصوص کیا گیا ہے وہاں جاکر دیکھیں وہاں ایک بڑا بورڈ لگا ہے جس پر لکھا ہے یہاں پکی قبریں بنانے کی اجازت نہیں ہے وہیں آپ اسی کووڈ کے حصے میں واقع پکی قبریں گننا شروع کریں آدھی سے زیادہ قبریں تو اس حصہ میں پکی کروادی گئیں ہیں۔ سنگ مرمر کے پتھر سے مزین قبریں کمیٹی کے قول و فعل کا مذاق اڑاتی دکھائی دیتی ہیں۔
دہلی گیٹ قبرستان کے سکریٹری حاجی میاں فیاض الدین مرحوم نے کچھ سال پہلے ایک انٹرویو کے دوران راقم کو بتایا تھا کہ یہ قبرستان 1924میں انگریزوں نے مسلمانوں کو اپنے مردے دفنانے کے لئے الاٹ کیا تھا اور اس کی ایک کمیٹی بنائی تھی جس کا نام جامع مسجد کمیٹی تھا جس کا کام اس وقت قبرستان اور مساجد کے انتظامی امور کو دیکھنا تھا۔اس زمانے میں جامع مسجد کمیٹی میں اس زمانے کے شاہی امام سمیت شہر کے معزز لوگوں کو نامزدکیا گیا تھا۔انگریزوں کے جانے کے بعد اور وقف ایکٹ اور وقف بورڈ بننے کے بعد بھی قبرستان کی کمیٹی اسی طرح چلتی رہی جس طرح چلتی آرہی تھی کمیٹی کے ہی لوگ شہر کے معزز افراد کو خالی ہونی والی جگہوں پر پر کرلیا کرتے تھے ۔ اس وقت قبرستان کمیٹی میں شمیم احمد خان عرف حاجی منے ، نعیم فریدی، مسرور صدیقی،حافظ جاوید، حاجی قیام الدین ، ارشد فہمی ،مرزاعالم بیگ وغیرہ جیسے شہر کے جانے مانے بزنس مین شامل ہیں۔ حاجی میاں فیاض الدین صاحب جنہوں نے کئی دہائیوں تک قبرستان کے انتظامی امور کو سنبھالا 28اپریل 2021کو وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے جس کے بعد اب کمیٹی کے انتظامی امور کون دیکھ رہا ہے یہ تصدیق کا موضوع ہے ۔بہرحال قبرستان کمیٹی کو اپنے صدر اور سکریٹری کا فوراْ انتخاب کرلینا چاہئے اور نئے ضابطہ نافذ کرنے چاہئیں جس سے کہ قبرستان میں پکی قبر بنانے کے سلسلہ پر روک لگے اور قبرستان کی زمین کو مستقبل میں پھر سے تدفین کے لئے استعمال میں لایا جاسکے اس کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے ۔