نئی دہلی:
دہلی کی ایک عدالت نے بدھ کے روز دہلی میں گزشتہ سال فروری میں دہلی میں ہونے والے فسادات کے دوران ایک مسجد کو نذر آتش کرنے کی تحقیقات کے لئے دہلی پولیس کو سرزنش کی ۔ عدالت نے کہا کہ پولیس نے جلد بازی میں کارروائی کی۔ کیس میں سماعت کے آخری دن جج نے پولیس سے اسٹیٹس رپورٹ اور ڈیلی ڈائری دکھانے کو کہا۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے آتشزدگی کے سلسلے میں شکایت درج کی تھی۔عدالت نے پایا کہ پولیس نے کیس کی تفتیش نہیں کی۔ عدالت نے کہا کہ تفتیش میں پولیس نے غفلت برتی۔ بتادیں کہ گزشتہ سال 25 فروری کو شرپسندوں نے شیو وہار میںمبینہ طور پر بجلی جانے کے بعد مسجد میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ صرف یہی نہیں ، دو ایل پی جی سلنڈروں کو بھی آگ میں ڈال دیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر ایک مقامی شخص نے مسجد کے اوپر بھگوا جھنڈا لگایا تھا۔ شکایت میں اس شخص کا نام دو دیگر افراد کے ساتھ ہے۔سماعت کے دوران جب جج نے سب انسپکٹر سمن سے پوچھا کہ اس نے کیا تفتیش کی؟ سب انسپکٹر نے عدالت کو بتایا کہ انہیں اس وقت کورونا ہوگیا تھا۔ جج نے پوچھا جب آپ کوکورونا نہیں ہواتھا تب آپ نے کیا کیا؟ کیا آپ نے ڈی ڈی انٹری کی؟کیا سب سے پوچھ گچھ کی گئی تھی؟ آپ کی زبان بندکیوں ہو گئی ہے؟ ۔‘ جج نے کہا ،’کیا مجھے پولیس کمشنر کو لکھناچاہئے؟‘ اس معاملے میں (جہاں) ایک ملزم کا نام لیا گیا ہے ، ہماری پولیس نے سوچا ہے کہ تفتیش ضروری نہیں ہے؟ ایس آئی سمن نے کہا ، معاف کریں سر۔جج نے کہا کہ آپ نے کتنے عرصے سے شکایت کنندہ کو جیل میں رکھا ہے؟ اس کا جواب کون دے گا؟ واضح رہے کہ شکایت کنندہ ہاشم علی کو آتش زنی کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔