تحریر: روہنی سنگھ، نئی دہلی
روشن مستقبل کی آس میں چھوٹے شہروں یا دیہات سے آنے والوں کے لیے ان میں چکاچوند اور کشش ہوتی ہے، جو بعد میں مانند پڑ جاتی ہے۔ سترہ سال قبل جھارکھنڈ کے ایک چھوٹے سے قصبہ رانچی سے ایک ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے میں بھی خوابوں کے شہر دہلی میں وارد ہوگئی تھی۔
دہلی ایک ایسا شہر ہے، جس نے صدیوں سے مہاجروں کو نہ صرف خوش آمدید کہا ہے بلکہ ان کو جذب بھی کیا ہے۔ میں بھی ان ہی مہاجرین میں شامل ہو گئی، جنہوں نے دہلی کو اپنا وطن بنا کر اس کے کلچر اور تاریخ میں رچ بس کر مرزا اسداللہ خان غالب، میر تقی میر، خواجہ حسن نطامی، دیوان سنگھ مفتوں، آنند موہن گلزار دہلوی اور خوشونت سنگھ کی طرح اپنے آپ کو دلی والا کہلوانے کا اعزاز حاصل کر لیا۔
دہلی کا موجودہ وسیع و عریض شہر دراصل آٹھ مختلف شہروں کا مجموعہ ہے، جو کسی نہ کسی دور میں کسی نہ کسی سلطنت کے پایہ تخت رہ چکے ہیں۔ بتایا جاتا 1400قبل مسیح مہا بھارت کی کہانی کے کردار پانڈوں کو جو پانچ علاقے دیے گئے تھے، ان میں ایک علاقہ اندر پرستھ تھا، جس کو انہوں نے پایہ تخت بنایا۔
یہ شہر موجودہ چڑیا گھر اور شیر شاہ سوری کی طرف سے بنائے گئے پرانے قلعہ کی بنیادوں میں واقع تھا۔ پھر تاریخ نے پلٹا کھایا اور پرتھوی راج چوہان نے مہرولی کے پاس شہر بسایا۔
غرض دہلی اجڑتی رہی اور پھر بستی رہی۔ یہی اس کی خصوصیت ہے۔ ایسا مانا جانا ہے کہ راجہ دھولی نے پہلی صدی میں دہلی کو اپنا دارالحکومت بنایا تھا۔ بہت سے مؤرخین کا خیال ہے کہ دہلی شہر کے نام کے طور پر پہلا حوالہ غالباً یہیں سے آیا۔
پھر راجپوت، خلجی، تغلق، لودھی، مغل اور پھر انگریزوں نے دہلی کو اپنا اپنا دارالحکومت بنایا۔ اس شہر نے عروج و زوال کے ان گنت دور دیکھے ہیں۔ مگراس شہر کی روح اس میں رہنے والوں کے اندر زندہ رہی ہے۔ جیسا کہ دلی والوں کے لیے کہتے ہیں، ”دل والوں کی دلی”۔ اگر سینے میں دل اور ہمت ہے تو یہ شہر آپ کو خوش آمدید کہے گا۔ یہ مواقعوں اور اتفاقات کا شہر ہے۔
مسلمانوں کی آمد سے قبل شہر میں ہندو تجارتی برادری کا غلبہ تھا۔ افغانوں کے دور میں بھی اس برادری کا دبدبہ رہا۔ یہ لودھیوں اور مغلوں کے ساہوکار تھے اور اکثر انہیں جنگی ضروریات کے لیے قرض دیتے تھے۔
مسلم حکمرانوں کی آمد کے ساتھ شہر میں بھی تبدیلیاں آئیں۔ مسلمان چونکہ اپنے ساتھ اسلام کے عالمگیر بھائی چارے کا پیغام لے کر آئے تھے، اس نے تصوف کی شکل میں نچلی ذات کے لوگوں کو اپنی طرف راغب کیا، جو صدیوں سے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے امتیازی سلوک کا شکار تھے۔
سن 1857 کی پہلی ’جنگ آزادی‘ کی ناکامی کے بعد برطانوی حکمرانوں نے شہر کی ایک بڑی آبادی کو جلاوطن کرکے ان کو اتر پردیش کے مختلف شہروں میں بسا کر اس شہر کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کروایا۔
سن 1947 آزادی کے وقت مغربی پنجاب سے سکھوں اور پنجابی ہندو مہاجرین کی آمد سے دہلی کا مذہبی اور نسلی آبادی کا تناسب ایک بار پھر بدل گیا۔ حکیم مسرور احمد خان، جن کے آباو اجداد مغل دربار میں شاہی حکیم تھے، نے ایک بار مجھے بتایا، ”ہندو تاجر برادری جو مغلوں اور انگریزوں کے دور میں پروان چڑھی اور خوشحال ہوئی، کو سن1947 کے بعد پہلی بار سکھوں کے ساتھ ان کو مسابقت کا سامنا کرنا پڑا۔ مغربی پنجاب سے اجڑنے والے مہاجرین محنتی تھے اور تجارت میں اپنی قسمت آزمانا چاہتے تھے۔ ان لوگو ں نے دہلی کے ہندو تاجروں کو سخت مقابلہ دیا اور جلد ہی اس تجارتی مرکز میں ٹرانسپورٹ کے کاروبار پر غلبہ حاصل کرنا شروع کر دیا۔
تین دہائی قبل تک دہلی شہر پنجابی ہندوؤں اور سکھوں کے غلبہ کی وجہ سے پنجاب کا ایک توسیع شدہ حصہ لگتا تھا۔ سیاست میں بھی پنجابی برادری کی خاصی عملداری تھی۔ مگر اب یہ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ پچھلے تیس برسوں سے بہار اور مشرقی اتر پردیش سے بڑی تعداد میں روزگار کے متلاشی افراد جن کو پوروانچلی کہا جاتا ہے یہاں مقیم ہوئے۔ انہوں نے دہلی کے پنجابی غلبے کو زیر کرکے شہر کی آبادیاتی ساخت کو پوری طرح تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔
دہلی صدیوں سے مسائل سے لڑتی آ رہی ہے۔ آج کے تاریخ میں یہ ملک کا سب سے زیادہ جرائم کی شرح والا شہر ہے، جسے اکثر بھارت کا عصمت دری کا دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے۔ ہر روز شہر میں داخل ہونے والے مہاجرین، بڑھتی ہوئی کچی بستیاں، غیر محفوظ زندگی گزارنے کے حالات، شہر کے چاروں طرف بڑھتے ہوئے کوڑے کے ڈھیر اور پورے شہر کے گندے نالوں کے بوجھ لیے دریائے جمنا بھی شہر کی حالت زار پر سسک رہا ہے۔
ایک وقت دہلی کو اپنے سر سبز مرغزاروں پر فخر تھا۔ مگر آج یہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ ہرسال موسم سرما میں اس کے باشندے نہ صرف سخت سردی بلکہ دھویں اور دھند سے نبرد آزما ہو تے ہیں۔ ہوا کے خراب معیار کی وجہ سے سانس لینا محال ہو جاتا ہے اورچھوٹے بچے صاف ہوا کے اپنے حق کے لیے لڑتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
حالیہ عرصے میں دلی والوں کی زندگی میں سب سے بڑی جو مثبت تبدیلی آئی، وہ زیر زمین ریلوے کا نظام لایا ہے جسے یہاں میٹرو کہا جاتا ہے۔ عمارتیں گرائے یا ہلاگلا کیے بغیردنیا کاتیرھواں بڑا میٹرو سسٹم کھڑا کر دیا گیا ہے۔ ہر اسٹیشن پر وہی جدید اور خودکار نظام ہے جو لندن یا کسی دوسرے ملک میں نظر آتا ہے۔ میٹرو کی بدولت اندرون شہر سفر سہل اور آسودہ ہو گیا ہے۔ سفر سستا‘برق رفتار اور محفوظ بھی ہے۔ گرمیوں میں میٹرو ٹھنڈی اور سردیوں میں گرم ہوتی ہے۔
خیر دہلی ایک دو دھاری تلوار کے مانند ہے۔ یہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ اس میں سپردگی بھی ہے اور بغاوت بھی ہے۔ میر تقی میر، جب دہلی سے لکھنوٗ چلے گئے، تو اس شہر کے بارے میں انہوں نے کہا۔۔
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنوں
ہم کو غیر جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے جہاں منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کر ویراں کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اْسی اجڑے دیار کے