نئی دہلی:
بنگلور سیشن عدالت کی جانب سے دہشت گردی کے الزامات سے ڈسچار ج کئے گئے تریپورہ کے حبیب میاں کی کل جیل سے رہائی عمل میں آئی جس کے بعد اسے بنگلور سے بذریعہ ہوائی جہاز تریپورہ بھیج دیاگیا، تریپورہ پہنچنے کے بعد حبیب میاں نے بذریعہ فون گلزار اعظمی (سیکریٹری قانونی امداد کمیٹی جمعیۃ علماء مہاراشٹر ارشد مدنی) سے گفتگو کی اور اس کا مقدمہ لڑنے کے ساتھ ساتھ اسے صحیح سلامت اس کے گھر پہنچانے تک مدد کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
اس ضمن میں گلزار اعظمی نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جیل سے رہائی کے بعد بھی ملزم کا تریپورہ پہنچنا مشکل ہورہا تھا کیونکہ اس کے پاس کسی بھی طرح کا شناختی کارڈ نہ ہونے کہ وجہ سے بنگلور ایئر پورٹ پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جسے ایئر پورٹ اتھارٹی سے گفتگوکرکے حل کیا گیا جس کے بعد حبیب میاں کو ہوائی جہاز میں بغیر کسی شناختی کارڈ کے سفر کرنے کی اجازت ملی۔
مولانا مدنی نے کہا کہ مسلمانوں سے متعلق میڈیا کادہرارویہ تشویشناک ہے، گرفتاریوں کا خوب شورمچایاجاتاہے، لیکن عدالت سے رہائی ہوتے ہی ان کو سانپ سونگھ جاتاہے، مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ جب تک خاطی پولس افسران کو سزانہیں دی جاتی تب تک انصاف ادھوراہے لیکن جب ہم سزادینے کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہم سے کہاجاتاہے کہ ایساکرنے سے پولس اورسیکورٹی ایجنسیوں کا مورل کمزورہوگام،جب کہ سچائی یہ ہے کہ جس طرح بے گناہوں کو دہشت گردی کے جرم میں پھنسایاگیاہے، یا اب بھی پھنسایاجارہا ہے اس پوری قوم کامورل گررہا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ پولس افسران کو سزادلانے کے تعلق سے بھی قانونی جدوجہدکی جارہی ہے، ساتھ ہی متاثرین کے لئے جو عدالتوں سے باعزت رہا ہوچکے ہیں معاوضہ کے لئے بھی کوششیں جاری ہیں۔
جیل سے رہائی کے بعد حبیب میاں نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی بنگلور آئے نہیں اور نہ ہی انہیں بنگلور شوٹنگ مقدمہ کے تعلق سے کوئی جانکاری ہے، پولس نے جب انہیں تریپورہ سے گرفتار کرکے بنگلور لایا اس وقت وہ پہلی بار بنگلورشہر آیا تھا اور وہ اس مقدمہ میں ماخوذ کسی بھی ملزم سے نا تو کبھی ملا اور نہ ہی وہ کسی کو جانتا ہے۔پیشہ سے رکشا ڈرائیور باریش حبیب میاں نے بتایا کہ ان کی گرفتاری کا صدمہ ان کے والد برداشت نہ کرسکے اور ان کا انتقال ہوگیا جبکہ گذشتہ چار سال قید کے دوران ان کا جوذاتی نقصان ہوا وہ اسے بیان نہیں کرسکتے، مجھے اور میرے اہل خانہ کو جو جسمانی اور ذہنی اذیتیں ملی ہیں میں اسے لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا لیکن اس د وران مجھے جمعیۃ علماء کی قانونی امداد ملی جس کی وجہ سے آج میں مقدمہ سے بری ہوگیا اور میرے اوپر لگا دہشت گردی کا داغ بھی دھل گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ شکر گزار ہیں جمعیۃعلماء کے جن کی کوششوں سے انہیں مقدمہ بری کیا گیاورنہ پتہ نہیں کب ٹرائل شروع ہوتا اور کب اس کا اختتام ہوتا اور انہیں اسی طرح جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی اور ان کے اہل خانہ بھی پریشان رہتے۔
واضح رہے کہ بنگلور پولس نے ملزم پر تعزیرات ہند کی دفعات 120-B, 121,121-A,122,123,307,302، آرمس ایکٹ کی دفعات25,27، دھماکہ خیز ماد ہ قانون کی دفعہ6اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے قانون کی دفعات 10,13,16,17,18,20کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا اور اس پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا جس سے بنگلور کی سیشن عدالت نے 14 / جون کو اسے بری کردیا۔