تحریر: عبد السلام عاصم
تمام تر وابستگی کے باوجود مذاہب اور مذہبی نظریات دو مختلف چیزیں ہیں۔ مذاہب کی ایک بنیادی خصوصیت جہاں یہ ہے کہ وہ آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتے، وہیں مذاہب سے وابستہ تنظیمیں چونکہ بنیادی طور پر نظریاتی ہوتی ہیں، خالص مذہبی نہیں؛ اس لئے وہ اپنی جداگانہ پہچان کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس فرق کو جو لوگ سمجھ جاتے ہیں وہ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے بین مذاہب ہم آہنگی کی خوبصورت گنجائش نکال لیتے ہیں اور جو لوگ اس تفہیم سے نہیں گزر پاتے وہ مخلوط معاشرے میں بھی سماجی یک رنگی پر زور دیتے ہیں۔
اس لحاظ سے دنیا آج بھی نظریاتی فرق کو مقدم رکھنے والوں اورزندگی کی رنگا رنگی اور گونا گونی کو معاشرتی حسن پر محمول کرنے والوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اِس فرق کی وسعت میں بہر حال وہاں کمی آرہی ہے جہاں لوگ بلا لحاظ رنگ و نسل، مذہب و ملت حقیقی تعلیم سے بہرہ ور ہو رہے ہیں۔ عصری منظرنامے میں انقلابات زمانہ کے موجودہ موڑ پر یہودیوں اور مسیحیوں کے بعد اب بظاہر مسلمان اور ہندو برادران اِن دنوں اس کشاکش سے دوچار ہیں۔ دونوں کی نفسیاتی کیفیت بہر حال بتاتی ہے کہ وہ اِس راستے کے انتہائی مرحلے سے گزر رہے ہیں، یعنی آئندہ چنددہائیوں میں اِس کیفیت کی شدت فطری طور پر معدوم ہونے لگے گی۔ بہ الفاظ دیگر اِن کی نسلوں کی تباہی کا سلسلہ اب اور دراز نہیں ہوگا۔ حالات سے بیزاری مرحلہ وار بیداری میں تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ یہ ادراک آئندہ دہائیوں میں انقلابی تغیر کا پیش خیمہ ہے۔
چند روز قبل عشائیہ کے بعد ایک مانوس لیکن غیر پُرشور رہگزر پر روایتی چہل قدمی کے دوران مجھے نئی اور ادھیڑ عمر والی نسل کے کچھ نمائندوں کی بات چیت سننے کا موقع ملا جو بہ انداز دیگر انتہائی حوصلہ افزا تھا۔ آگے پیچھے نیم ہمقدم شرکائے گفتگو میں ایک نوجوان نے ایک ادھیڑ عمر کے شخص کی کچھ اِس طرح کی تمہید پر مہذب طریقے سے اعتراض کیا کہ ”ارے آپ ان لوگوں کو نہیں جانتے۔۔۔“۔ معترض نوجوان کا کہنا تھا کہ ڈسکورس میں ججمنٹل ذہن سے بات شروع کرکے امکانات کے رُخ پر کسی خوشگوار نتیجے کی امید نہیں کی جا سکتی اور ویسے بھی دین دھرم کے نام پر چند گمراہ لوگوں کی حرکتیں کسی پوری کمیونٹی کو بدنام کرنے کیلئے کافی نہیں ہونی چاہئیں۔ اِس لئے کسی بھی فرقے یا قوم کیلئے یہ تمہید درست نہیں کہ ”ارے آپ اُن لوگوں کو نہیں جانتے“۔ اِس نوجوان کے بلا اشتعال مدلل لہجے سے اتفاق کرتے ہوئے اُس کے ایک دوسرے ساتھی نے کہا کہ ”ایسی ہی افترا پردازیوں کو نقد و نظر کا نام دینے کے نتیجے میں کل جوڈو فوبیا پھیلا تھا نیز صلیبی جنگیں ناگزیر ہوئی تھیں اور آج اسلاموفوبیا کے محاذ پربھی افواہوں اور پروپگنڈوں کے ذریعہ اِسی طرح ظالم اور مظلوم سے باہمی اشتراک کا کام لیا جا رہا ہے“۔ اس نوجوان کی دوٹوک دلیل یہ تھی کہ”ڈر کے کاروبار میں ڈرنے اور ڈرانے والے دونوں حلقوں میں خوف کے دو طرفہ دھندے کے دلال پیدا ہو جاتے ہیں۔۔۔“۔
میرے نزدیک اس بحث کا سب سے زیادہ امکانی پہلو یہ تھا کہ نئی نسل کے ایک حلقے میں بیزاری بیداری کے رخ پر نظر آئی۔یہ سوچ کر میں ایکدم سے اپنی جوانی کے عہد میں لوٹ گیا جہاں دائیں بازو کی سیاست و معاشرت کے خلاف بیزاری ابھی بیداری میں بدل بھی نہیں پائی تھی کہ بائیں بازو کی انتہاپسندانہ سوچ کا کاروبار کرنے والوں نے اِسے اپنے محدود مفادات کیلئے بھنانا شروع کر دیا تھا اور یہ سلسلہ دہائیوں اِس طرح بے روک ٹوک دراز ہوا کہ بیزاری سے جو بیداری مطلوب تھی، وہی ساقط ہو گئی۔ ایسا کیوں ہوا! اس کے کئی اسباب میں سے ایک سبب یہ تھا کہ بیزاری کیش کرنے والے کچھ موقع پرست ایک دم سے دائیں طرف سے بائیں جانب آ گئے تھے۔ نام گنوانے سے گفتگو متنازعہ ہو جائے گی اس لئے اتنا اشارہ کافی ہے کہ عابدوں اور ملحدوں میں یکساں طور پر مقبول نظم و نثر لکھنے والوں نے پورری ایک نسل کی بیزاری کو بیداری میں بدلنے کی راہ مسدود کردی تھی۔
اِس پس منظر میں عصری منظر نامے پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد دل میں بس یہ تمنا اضطرابی کروٹیں لیتی ہے کہ کونین کی وسعت رکھنے والے لیپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ کی زنبیل سے کھیلتے عہدِ نو کے بچے بلوغت کے سفر میں اب اور ایسے عناصر کے ہتھے نہ چڑھیں جو ہر انقلاب کو بس اپنے محدود مفادات کیلئے کیش کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر موجودہ نسل کو بھی کہانیوں کا اسیر رکھا گیا تو کل وہ بھی حسبِ سابق جوانی کا سفر شعوری طور پر طے نہیں کر پائیں گے۔ جبکہ فطرت کا تقاضہ ہے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ انسان مرحلہ وار عقل، شعور اور علم سے روشناس ہوتا جائے تاکہ اُس کی بہادری طفلانہ طور پر بے ہنگم نہ رہے اور اُس کی بزدلی اُسے انجانے خوف کا شکار نہ بناتی پھرے۔
وطن عزیز میں عقائد کی اسیر دو بڑی قومیں اس وقت آپس میں اس طرح بر سر پیکار ہیں کہ ایک اپنی شکایات کا اپنی شرطوں پر ازالہ نہ ہونے پر نالاں ہے اور دوسری بری طرح اندیشوں اور وسوسوں کی زد پر ہے۔ اس صورتحال کو شدید سے شدید تر بنانے میں وہ افواہیں بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں جو پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں اطلاعات کی جگہ لے چکی ہیں۔ حکومتیں بظاہر غیر شاہی ہیں لیکن اُن کا مزاج بباطن شاہانہ ہے۔ عوام کی خدمت اِس طرح کی جاتی ہے جیسے اُن پر احسان کیا جا رہا ہے۔ جہل سے روایتی اور علم سے منفی استفادہ کرنے کی روش آج بھی عام ہے۔سابقہ حکومتوں نے جس قومی جہالت پر چھ دہائیوں تک عیش کیا، موجودہ حکومت ایک دہائی سے اُسی جہالت کو کیش کر رہی ہے۔
لوگ اپنے سوا سب کے بارے میں کچھ نہ کچھ رائے رکھتے ہیں اور اِس میں وہ اِس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ سر اٹھا کر یہ دیکھنے کی فرصت نہیں کہ سب ایک دوسرے کے آئینے میں سراپا ننگے ہیں۔ اپنے ہم مذہب بزرگوں کے بارے میں غلونے ان کی آنکھوں کے پھیلاؤ کو اتنا کم کر دیا ہے کہ وہ محدود سمت میں پٹے دار گھوڑے کی طرح سرپٹ بھاگے جا رہے ہیں۔ دوسرے کے زاویہء نظر کو کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ عقائد کی لن ترانیوں کا کاروبار کرنے والوں نے لوگوں کی سماعت کو بس سننے اور جھومنے کی حد تک اس بری طرح محدود کر دیا ہے کہ کچھ سمجھنا تو درکنار سوچنے تک کو ایسے لوگ گناہ سمجھنے لگے ہیں۔ متاثرہ اقوام کے آرٹ اور کلچر کے تجار بھی لوگوں کو حربی جنون میں مبتلا کر کے داد وصول کر رہے ہیں۔ انٹرٹینمنٹ کے نام پر ہر شام منی اسکرین، ٹیبلیٹ اور موبائیل پر لوگوں کو بس ملکی اور غیر ملکی جنگی تماشوں کا انتظار رہتا۔ ویسے بھی دنیا کے قابل لحاظ حصے میں امن دو جنگوں کے بیچ تھکان اتارنے کے وقفے میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔
ایسا نہیں کہ تمام ترقی یافتہ ممالک اِس عذاب والی سماجی کیفیت سے نجات پا چکے ہیں۔ ان میں بھی کچھ کم تو کچھ زیادہ ایسے ہیں جن کی اکثریت تعلیم یافتہ کم اور تعلیم زدہ زیادہ ہے۔ ان میں امریکہ اور چین الگ الگ طریقے سے سرفہرست ہیں۔ امریکہ صرف رنگ اور نسل کے امتیاز سے باہر نکلنے میں ناکام نہیں بلکہ غلبہ پسند عزائم کے بوجھ تلے اُس کے حوصلے ٹوٹنے بھی لگے ہیں۔ وہاں کسی بھی مصیبت سے متعلق کانسپریسی تھیوری بیچنے والے ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے تعویز اور گنڈہ فروشوں کو بھی مات دینے لگے ہیں۔ کوویڈ 19 کے تعلق سے امریکہ کی اکثریت کے اندھ وشواس کا مقابلہ شاید کوئی دوسرا ملک نہیں کر سکتا ہے۔دوسری طرف چین اپنے توسیع پسندانہ بحری اور برّی عزائم کی تاریکی میں اس قدر ڈوب چکا ہے کہ وہ ہر اندیشے کو ہچکولہ سمجھ کر انجوائے کر رہا ہے۔اُس کی موقع پرستانہ سیاست نے دنیا کے ایک بڑے حلقے کی زندگی عذاب کر رکھی ہے۔
ان سب کے باوجوداس وقت دنیا کے دو خطوں جنوبی اور مغربی ایشیا میں تغیر کا سفربظاہر نتیجہ خیزی کے رُخ پر ہے۔ بالترتیب ایک طرف بیزاری کی شام ہو رہی ہے تو دوسری طرف بیداری کے قدم دیارِ صبح میں نظر آ رہے ہیں۔ دونوں تبدیلیوں کی موافقت اور مخالفت کا بازاربھی خوب گرم ہے۔ کوویڈ 19 کے بعد یہ دوسرے دو اہم حوالے ہیں جنہوں نے اقوام عالم کی توجہ اپنی طرف مبذول کر رکھی ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)