تحریر:محمد قمر الزماں ندوی
آدمی کے لیے سب سے مشکل اور دشوار کام اپنے نفس اور منفی جذبات کو زیر کرنا ہے، نفس اور جذبات کو قابو کرنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے، اس لیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شحص غصہ میں اپنے نفس پر قابو پاسکے وہ سب سے بڑا بہادر ہے، وہ شجاعت میں سب سے بڑھ کر ہے۔ حضرت ابو ہریرؓ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا پہلوان اور طاقت ور وہ نہیں جو لوگوں کو کشتی میں پچھاڑ دے بلکہ قوی اور طاقت ور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے کو قابو میں رکھے۔ (بخاری و مسلم) ایک موقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غصہ ایمان کو خراب کر دیتا ہے جس ایلوا شہد کو خراب کردیتا ہے، ۔
ایک مرتبہ ایک شحص نے نبی کریم ﷺ سے درخواست کی کہ مجھے کوئی وصیت فرمائیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا غصہ مت کرو۔ اس شخص نے بار بار اپنی اس درخواست کو دہرائی۔ آپ نے ہر بار یہی ارشاد فرمایا:غصہ مت کیا کرو۔( بخاری)
غصہ اور غیض و غضب یہ بالکل فطری بات ہے، سخت اور ناگوار بات پر انسان کو غصہ آتا ہی ہے، یہ مطلوب نہیں ہے کہ آدمی کو سرے سے غصہ نہ آئے بلکہ جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ وہ غصہ اور غیض و غضب سے مغلوب نہ ہو۔
غصہ کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ غصہ کی حالت میں شیطان انسان پر آسانی سے قابو پالیتا ہے اور اس سے ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں کہ جن کا عام حالات میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس حالت میں لوگ کفریہ کلمات تک بک جاتے ہیں اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا۔ جس غصہ کی حدیث میں مذمت آئی ہے، اس سے مراد وہ غصہ ہے جس کے پیچھے نفسانیت کام کر رہی ہو۔ اور جس سے مغلوب ہو کر وہ حدود الٰہی سے تجاوز کر جاتا ہے۔ لیکن وہ غصہ جو اپنی ذات کے لیے نہ ہو، بلکہ وہ غصہ من ابغض للہ کے تحت ہو، وہ غصہ دشمنانِ دین کی ریشہ دوانیوں اور فتنہ پردازیوں پر آرہا ہو، تو وہ ہرگز مذموم نہیں ہے۔ بلکہ وہ محمود اور پسندیدہ ہے بشرطیکہ دشمنانِ حق کے خلاف جو اقدام بھی کیا جائے اس میں حق و انصاف اور حدود کا پورا لحاظ رکھا جاسکے ۔
اسلام اپنے ماننے والے کو حتیٰ المقدور صبر سے کام لینے اور غصہ پی جانے اور معاف کردینے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لیے صبر کرنا، برداشت کرنا، غصہ کو پی جانا، قدرت رکھنے کے باوجود معاف کر دینا یہ وہ اوصاف ہیں، جس کی اسلام میں بڑی تعریف کی گئی ہے۔
بسا اوقات ایک معاملہ اتنا سنگین ہوتا اور نازک ہوتا ہے کہ طبیعت وہاں پر غصہ پر آمادہ ہوتی ہے، لیکن وہاں غصہ کرنا صرف اس کے لیے نہیں، بلکہ پوری قوم کے لیے نقصان کا باعث ہوتی ہے، اس لیے ایسے موقع پر برداشت، صبر،درگزر، برد باری، تحمل مزاجی اور چشم پوشی سے کام لینا ہی مفید ہوتا ہے۔
ان دنوں قوم و ملت بھی ایسے ہی کچھ حالات سے دو چار ہے، چند افراد اپنی پالیسیوں کو بروئے کار لانے کے لیے ہر طریقے کے حربے استعمال کر رہے ہیں، ان میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کبھی کبھی ہمیں اکسا کر، غصہ دلا کر اپنی چاہت اور منشا اور اپنے مقصد کو سچ کر دکھلانا چاہتے ہیں اور ہوتا بھی یہی ہے کہ مسلمان جذبات میں آکر مشتعل ہو جاتا ہے اور جانے انجانے میں دشمن کا آلہ کار بن جاتا ہے۔
ابھی یوپی میں مرحلہ وار الیکشن ہونا ہے، تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے، دیکھئے گا کہ کس طرح مسلمانوں کو جذباتی بنایا جائے گا، کیسی دھواں دھار تقریریں کی جائیں گی،کہاں کا جملہ کہاں سیٹ کیا جائے گا، کس طرح کچھ پیشہ ور مقرر مسلمانوں کا جذباتی انداز میں استحصال کریں گے۔ اور کس طرح ان کو بظاہر متحد کرنے کا اعلان کیا جائے گا، ستر سال میں سیکولر پارٹیوں نے کیا کیا ❓ اس کا طعنہ دیا جائے گا، سیکولر پارٹیوں کی ناکامی کو بڑے جذباتی انداز سے بیان کیا جائے گا ، اور اس طرح وہ خود ہندوؤں کے متحد ہونے کا ذریعہ بن جائیں گے، اور ان کی حکومت بنوانے میں کامیاب ہوجائیں گے، جو پارٹی چاہتی ہی ہے کہ ہندوستان سے جمہوریت ختم ہوجائے اور رام راج یعنی ہندو راشٹر قائم ہو جائے۔
سیکولرزم اور جمہوریت کی مخالفت کرکے ہم کو تو کچھ نہیں ملے گا،صرف اس کے، کہ ہم دقت میں پڑ جائیں گے،لیکن فرقہ پرست پارٹیوں کو سیکولرزم اور جمہوریت کی مخالفت کرکے اپنا الو سیدھا کرنے کا موقع یقینا مل جائے گا۔اس سے پہلے بہار کے الیکشن کے وقت ہمارے بعض رہبران قوم اور دانشور حضرات پڑوسی ملک میں سیکولرزم کے خلاف جو تقریریں کی جاتی ہیں، وہاں سے پورا مواد لے کر اس نظام حکومت پر جم کر برسے تھے۔ لیکن ان نادانوں کو پتہ ہی نہیں کہ وہ تقریر اور مواد وہاں کے لیے ہے، اس لیے کہ وہ ملک آزاد ہی ہوا تھا اسلام اور شریعت کے نام پر وہاں تو اسلامی نظام ہی نافذ ہونا چاہیے تھا ، اس کے علاوہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے، لیکن ہندوستان میں جہاں جمہوریت ہی کی وجہ سے ہم یہاں رہ گئے تھے کہ اس کی وجہ سے ہم محفوظ رہیں گے، یہاں اسی نظام کو ہم کو مجبوری میں فالو کرنا پڑے گا، اور اس کے علاوہ ہمارے لیے فی الحال کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یقینا موجودہ جمہورت کا اسلام سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔
اس لیے ایسے وقت میں ہمیں ضرورت ہے بردباری کی، عقل و شعور کی، تحمل مزاجی اور دور اندیشی کی، پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی اور سوچ سمجھ کر کسی بھی اقدام کرنے کی، ورنہ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم جذبات میں آکر دھوکا کھا جائیں کسی کی لسانی اور چرب زبانی سے قوم و ملت کا نقصان کر بیٹھیں۔ ہم جذبات میں بہہ کر عجلت میں کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو ہمارے زعم میں صحیح ہو لیکن باطل اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہو، مجھے امید ہے کہ یوپی کے مسلمان اور سیکولر ووٹرس وقت کی نزاکت کو سمجھیں گے ، اور جذبات میں آکر کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں جس فرقہ پرست پارٹیوں کو پھر سے اقتدار میں آنے کا موقع ملے۔
‘