تحریر: ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
’’ذہنی وفکری ہم آ ہنگی آ رزو وجستجو‘‘ نئی پیش رفت، دانشمندانہ کاوش
ڈاکٹر خواجہ افتخار نے ایک کتاب’’the Meeting of Minds-A Bridging Initiative ‘‘ کے عنوان سے تصنیف کی ہے اس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر خان محمد ذاکر حسین نے ’’ذہنی و فکری ہم آہنگی آ رزو وجستجو‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ کتاب کو مانک پبلی کیشن نے شائع کیا ہے۔ 517 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کے مشمولات ومندرجات نہایت اہم اور عصری ضرورت پر مشتمل ہیں ۔ کل ابواب بتیس (32) ہیں جن کی فہرست درج ذیل ہے۔ 1- سنگھ آ ر ایس ایس اور بی جے پی اشتراک کو سمجھنے کی جانب ( معکوس آ غاز) 2- موضوع کے انتخاب کا دباؤ- اب کیوں؟ 3- ہندوتوا- ایک مخالف سیاسی نظریہ۔4- سیکولر زم – نظریہ جدو جہد آزادی اور مابعد تغیرات 5- سیکولر سیاست کا زوال اور سنگھ پریوار کا عروج 6 – ہندوتوا بمقابلہ سیکولرا زم – ایک قسم کی رسہ کشی 7- دائیں بازو کے ہندوانہ جذبات کی شروعات 8- کانگریس نوشتہ دیوار پڑھنے میں ناکام رہی 9- سیاست، سماج ، حکومت اور اداروں میں آر ایس ایس 10- ہندوستانی مسلمانوں کا سنگھ پریوار کے لیے رویہ 11- ہم کہاں غلط ثابت ہوئے12- ایودھیا تنازعہ اور معاشرتی ردعمل 13- سنگھ آ ر ایس ایس اور بی جے پی اشتراک کے ساتھ بات چیت کی عدم موجودگی 14- ماضی کی پہلیں، ضمیر فروشی 15 – ارتقاء پذیر سماجی وسیاسی منظر نامے کے تئیں ردعمل 16- قیادت کی ناکامی 17- عمومی مسلم رویہ 18- اعتماد اور قابلیت کا فقدان 19- دائیں بازو کے جذبات اور مسلم دنیا 20- مسلم راشٹریہ منچ اور آر ایس ایس کی پیش قدمی 21- نریندر مودی کا عروج اور بی جے پی کا حتمی تموج 22- مسلم ووٹ بینک محض فسانہ 23- کشمیر، کشمیری، ہندوستان اور ہندوستانی مسلمان 24- پولرائزیش ( قطبیت)- سب سے بڑا چیلنج 25- مستقبل کا ہندوستان 26- رجائیت، توقعات اور ذمہ داریاں 27- مشترکہ عوامل، اجماع اور فکری ہم آہنگی 28- میل ملاپ کا اسٹیج 29- باہمی خود شناسی پر کلام 30- سماج کے ضمیر سے خطاب 31- آ خری منادی- قوم کے لیے نیک مشورہ 32- ہندوستان- مقدس سرزمین۔
کتاب کے ابواب پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد اس کی اہمیت و افادیت اور ضرورت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ کتاب کے مباحث کا تجزیہ کرنے سے قبل یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد ایک منجھے ہوئے اسکالر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی امور، ملی مسائل، ملکی سیاست پر کافی گہری نظر رکھتے ہیں انہوں نے ملک کے سیاسی منظرنامہ اور اس کی اتھل پتھل کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وہ سوچنے ،غوروفکر کرنے کے عادی ہیں ،مثبت رویہ ، معتدل اور متوازن فکر ان کی علامت ہے۔ تعمیری و فکری طور سماج کی اصلاح بان کا شیوہ ہے۔
ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی کتاب کو ناچیز نے حرف بحرف پڑھا اور ہر لفظ جملے پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنے کی کوشش کی ہے۔ جو میری رائے ہے اس کو تو میں آ خر میں پیش کرونگا البتہ ابتدا میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کتاب کی ہر سطر اور جملہ دانشوری اور سنجیدگی و متانت کا جو محور وطریقہ پیش کرتا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ آ پ نے کتاب کے اندر جس طرح بے باکی اور امانت و دیانت سے حقائق کو واشگاف کیا ہے۔ خواہ وہ آ ر ایس ایس سے متعلق ہوں یا بی جے پی یا پھر گانریس سے وابستہ چیزیں۔ دوران مطالعہ میں خیال کررہا تھا کہ آ ج ملت اور ملک وقوم کوایسے ہی صاف اور سچے مفکرین ومدبرین کی ضرورت ہے۔ جو فکر اور نظریہ مصنف نے پیش کیا ہے وہ کسی منشور سے کم نہیں ہے۔
ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے اپنی کتاب کے اندر بارہا یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ آ ج دانشمندی اور سنجیدگی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ملک کی سیاسی صورتحال ماضی، حال اور مستقبل کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور پھر اس کے بعد اپنا سیاسی سفر شروع کریں۔ مگر افسوس اس قوم کے پاس جذبات کے علاوہ کچھہ بھی نہیں ہے۔ جب بھی کوئی دانشور یا مفکر اپنے تجربات و مشاہدات سے کسی چیز کی طرف اشارہ کرتاہے یا اس کی مجموعی قوت کااعتراف کرتا ہے تو ہماری صفوں میں ایسے بہت سارے افراد مل جاتے ہیں جو اپنے سیاسی مفادات ، خود ساختہ مصلحتوں کی بناء پر قوم کو برگشتہ کرنے کا کام کرتے ہیں۔ جس کا نقصان بارہا اس قوم نے اٹھایا ہے۔ ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی یہ تحقیق باور کراتی ہے کہ آزادی کے بعد جن نام نہاد سیکولر جماعتوں کو مرکزی اور ریاستی سطح پر حکومت سازی کا موقع ملا انہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ مسلمانوں کے بڑے بڑے مسائل سے عمدا کنارہ کشی اختیار کی اگر وہ چاہتیں تو مسائل کا حل نکل سکتا تھا۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ، بابری مسجد یا مسلم پرسنل لا وغیرہ وغیرہ۔ اگر کتاب کا صحیح معنوں میں کوئی کھلے دل سے مطالعہ کرے گا تو وہ یقیناً یہ جان جائے گا کہ وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی دشمنی آ ر ایس ایس ،بی جے پی سے کم کریں نیز نام نہاد سیکولر جماعتوں کی اندھی تقلید کرنا چھوڑیں۔ وقت کی نبض پرکھ کر اپنے اور ملک کی عظمت و بلندی کے جملہ منصوبوں میں تعاون پیش کریں۔
خاص طور پر مسلم مذہبی قیادت کو افہام و تفہیم اور بقائے باہم کے زریں اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت۔ تنوع کے ساتھ معاشرتی ہم آہنگی سے جو مرکب تیار ہوتا ہے اس کے اثرات سماج میں دیرپا ہوتے ہیں۔ در اصل یہی ہندوستانی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کے بنیادی عناصر ہیں۔ کتاب کے تمہیدی کلمات میں آ پ نے لکھا ہے”تنوع قانون فطرت ہے جبکہ انحراف اور اختلاف انسانی نفسیات اور طرز عمل کی لازمی خصوصیات ہیں۔ اس کے درمیان بحث و مباحثہ اور گفتگو کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے۔ روشن خیال ذہن اسے فکری طور پر مستحکم اور نتیجہ خیز سمجھتا ہے۔ لیکن قدامت پسندوں کے لئے یہ عوامی دشمنی کا ایک ایسا عمل ہے جو یقیناً ریاست کے غیض وغضب کو دعوت دیتا ہے”
اس اقتباس یا کتاب کے دیگر حصوں سے واضح ہوتا ہے کہ آ ج ہمیں اپنے قدم مذاکرات کی طرف بڑھانے چاہیے اور جو خلیج معاشرے میں واقع ہورہی ہے اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم نام نہاد سیکولر جماعتوں کی اندھی تقلید کو خیر آباد کہہ کر نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ اپنے رشتے رواں حکومت اور سنگھ سے مضبوط کریں۔
بابری مسجد کے تنازع کی بابت ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے جن حقائق کا ذکر کیا ہے وہ مبنی بر حقیقت ہیں۔ آ ج بھی بہت سارے مسلمان کانگریس کو اپنا حقیقی نمائندہ اور مسیحا سمجھتے ہیں ۔خود راقم الحروف بھی کتاب کا مطالعہ کرنے سے قبل کچھ اسی طرح سوچتا تھا لیکن جب حقیقت کا مطالعہ کیا اور سنجیدگی سے غور کیا تو اندازہ ہوا کہ حقیقت تو کچھ اور ہی۔ جس غلط فہمی میں راقم مبتلا تھا اس کا ازالہ آ نجناب کی تحقیق نے یکایک ختم کردیا۔ بہت سارے مسائل آ ج ایسے ہیں جن کی اتباع ہم صرف سن کر کررہے ہیں۔ حقیقت تک پہنچنے یا اس کے پس پردہ عوامل پر مسلم کمیونٹی نے کبھی غور ہی نہیں کیا۔ چنانچہ بابری مسجد کے متعلق جو رائے اس کتاب کے مصنف نے پیش کی ہے اگر اس پر عمل ہوجاتا تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ منظر نامہ کچھ اور ہی ہوتا۔ ذیل میں اس اقتباس کو نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ بابری مسجد کے انہدام کا جو اصل سبب ہے اس پر تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد آ پ صفحہ 174 پر تحریر کرتے ہیں” وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بابری مسجد ایکشن کمیٹی انتشار کا شکار ہوتی رہی اور آ خر کار یہ معاملہ آ ل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیت علماء ہند کے سپرد ہوگیا۔ میں کسی پر الزام تراشی نہیں کروں گا لیکن پہلے دن ہی سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسجد کے تعلق سے بات چیت کرنے کے لیے اوپر بیان کردہ تجاویز کی بنیاد پر کوئی فارمولا وضع کرنا چاہیے تھا۔ اور اس فارمولے کے تحت ملک کے بے شمار حصوں میں بند پڑی ہوئی خستہ حال اور بے حرمتی کا شکار مساجد کی بازیابی کی کوشش کی جانی چاہیے تھی۔ ہم تمام محاذوں پر ناکام ہوئے اور ہمارے حصے میں صرف ذہنی تناؤ اور پریشانی آ ئی ۔ ہم کس پر الزام دھریں؟ اب اس سے کیا فائدہ ہونے والا ہے۔ ہم نے جس چیز کو کورٹ کے فیصلے سے قبول کیا۔ اس سےکہیں بہتر معاملات بات چیت کے ذریعے حل کیے جاسکتے تھے۔ شریعت تب بھی وہی تھی اور اس کے بعد بھی وہی رہے گی۔ اگر یہ اب تسلیم شدہ ہے تو پہلے ایسا ممکن کیوں نہ تھا؟ شاہ بانو کیس میں آ ل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کورٹ کے فیصلے کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے دستور میں ترمیم کروانا چاہتا تھا اور ایسا ہوا بھی لیکن بابری مسجد کے معاملے میں اس طرح کا رویہ کہاں چلا گیا؟ شریعت تو کل بھی وہی تھی آ ج بھی وہی ہے اور الحمد للّٰہ قیامت تک وہی رہے گی۔ ایک ایسے وقت میں جب مذہبی مکتبہ فکر کی رائے کو دعوت دی جارہی ہو تصور کیجئے کہ اگر قیادت اس مسئلے کو تب حل کرلیتی تو آ ج یہ دونوں سماج پر سکون ہوتے اور نفرت کی خلیج اتنی وسیع نہ ہوتی ۔ ہم اپنے ردعمل میں یا تو تاخیر کردیتے ہیں یا عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بابری مسجد اور کامن سول کوڈ اس کی حالیہ مثالیں ہیں”
مصنف کی درج بالا رائے سے اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ مگر افسوس قیادت پر ہے جس نے عوام کو اپنے جذباتی بیانات میں الجھا کر ایک اہم پیش رفت کو ٹھکرا دیا اور پھر ہاتھ میں سوائے ناکامی اور افسردگی کے کچھہ نہیں آ یا۔ یہاں یہ بھی عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ جب بابری مسجد کے متعلق فیصلہ آ نے والا تھا اس وقت راقم نے ہندوستان کے معتبر اخبار روزنامہ انقلاب میں ” کہیں ہم جذباتی بیانات کے شکار تو نہیں ہورہے ہیں” کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا ، اس پر امارت شرعیہ کے امیر مرحوم مولانا ولی رحمانی نے دو پیج کا خط ارسال کیا تھا جس میں انہوں نے مجھے کہا تھا آ پ جیسے لوگوں نے ہی علماء سے عوام کو دور کر رکھا ہے۔ اس مضمون میں بھی آ پ کی درج بالا فکر سے اتفاق کرنے کو کہا گیا تھا۔ اسی طرح کتاب کے اندر کئی اہم مباحث کو تفصیل سے زیر بحث لایا گیا ہے۔ موجودہ وقت میں بدلتے حالات پر جو مشورہ مصنف نے دیا ہے اس کی اس وقت بھر پور تائید کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلا آ پ صفحہ 175 پر لکھتے ہیں۔
” ہندوؤں کے جذبات جس تیزی کے ساتھ 1986 کے بعد خاص طور پر 1992میں مسجد کے انہدام اور اس کے بعد کے عام انتخابات میں بی جے پی کی یک بعد دیگرے متواتر تین کامیابیوں سے بڑھ رہے تھے۔ اور جس طرح ملکی سیاست بی جے پی کے آ س پاس منڈلا رہی تھی یہ ایسے اشارے تھے جس کی بناء پر مسلم قوم اس مسئلے پر نئے سرے سے غور کرسکتی تھی۔ سیکولر سیاسی جماعتوں نے کھلم کھلا یا چوری چھپے اکثریت کے جذبات کی طرف رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن ہماری قیادت نے اپنے روایتی اور قدامت پسندانہ موقف پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ چیزیں ہمارے ہاتھوں سے نکلتی جارہی ہیں لیکن ہماری دانست میں کوئی تازہ کار سوچ یا بہتر نظریہ نہیں ہے”
امید ہے آ نجناب کی یہ فکر اور مخلصانہ کاوش معاشرے میں ایک انقلاب برپا کرے گی اور خصوصاً مسلم کمیونٹی میں جو لوگ قیادت کے نام پر اپنی اپنی دکانیں کھولے ہوئے ہیں وہ ضرور بند ہونگیں۔
مصنف نے مسلمانوں کی تنظیم سازی اور سنگھ کی مستحکم تنظیم سازی کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے وہ بعینہٖ درست ہے۔ صفحہ 190 پر میری برادری کے عنوان سے رقم طراز ہیں ” مجھے اتنی گہری اور وسیع کوشش کہیں بھی نظر نہیں آ تی ہے۔ایسی بھیڑ چال ذہنیت کا گواہ ہوں جو انسانی ضمیر کو کسی موضوع پر بحث کی دعوت دینے سے پہلے ہی موضوع اور اس کے خیال کو تہس نہس نہیں کردیتی۔ یہ ایک ایسا سماج ہے جہاں دانشور اجرت، معاوضوں اور ذاتی فوائد کے لیے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں جبکہ آ ر ایس ایس ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے ساتھ لاکھوں سرشار کارکنوں ، دانشوروں، بیوروکریٹس ، ماہرین تعلیم، ججوں، آ رمی جرنلوں ، دفاعی اور سلامتی کے ماہرین اور دنیا بھر میں اہمیت کے حامل جاسوسی انتظامیہ پر مبنی مضبوط کیڈر رکھتی ہے۔ اس تجزیہ کے ساتھ میں اس نتیجہ پر پہنچنے کے لیے مجبور ہوں کہ ہندوستان کا مسلم سماج بصیرت و بصارت اور کسی ایجنڈے یا حرکت عمل سے عاری ہے۔ یہ اچانک جاگتا ہے، کچھ آوازیں نکالتا ہے اور پھر گہری نیند میں بچلا جاتاہے”
درج بالا اقتباس میں مسلم معاشرے کی بالکل صحیح تصویر کشی کی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمارے اندر مفاد پرستی، خود غرضی کا رواج ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر لوگ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ شعور و آگہی کا مکمل فقدان ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آ ر ایس ایس سے قبل جمعیت علماء ہند کا وجود عمل میں آ یا اس کے باوجود اس کا دائرہ کتنا تنگ ہے یہ سب جانتے ہیں۔ تنظیم سازی، افراد سازی کا جو بلند معیار سنگھ نے پیش کیا ہے وہ ہم سب کے لیے نمونہ ہے۔
آ خری بات
آ نجناب کی کتاب ” ذہنی وفکری ہم آ ہنگی آ رزو وجستجو” کی بے شمار خصوصیات ہیں ان میں سب سےاہم بات یہ ہے کہ یہ کتاب ایک ایسے معاشرے کی تشکیل وترتیب کی دعوت دیتی ہے جو مشترکہ اقدار پر مبنی ہو۔ کتاب تنوع، تعدد اور رنگارنگی کی خوبیوں اور اچھائیوں کو قبول کرنے کی رغبت دلاتی ہے۔ در اصل تکثیریت ہی ہندوستانی سماج کی اصل روح ہے۔ اسی کے ساتھ کتاب کے مباحث فکری توازن اور وسعت ظرفی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ مستقبل میں ملک کاسیاسی و سماجی منظر نامہ کیا ہوگا اور مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔ اہم بات یہ بھی کہ یہ کتاب فکر و نظر کو اپیل کرتی ہے اسی کے ساتھ جو غلط فہمیاں مسلم معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں ان کا ازالہ کرنے میں کتاب اہم رول ادا کرتی ہے۔ جو سماج اب تک نام نہاد سیکولر جماعتوں کو اپنا مسیحا اور خیر خواہ تصور کرتا ہے اس کتاب کو پڑھ ان جماعتوں کا حقیقی چہرہ واضح ہوجائے گا۔ اصل تحقیق و تصنیف وہی ہوتی ہے جو تجربات و مشاہدات پر مبنی اورفکر و روح دونوں کو جھنجھوڑے ۔ الحمد للّٰہ اس کتاب کے اندر یہ خوبی پوری طرح موجود ہے۔ کتاب کا ایک امتیاز یہ بھی کہ اس کتاب میں پیش کردہ تمام مباحث پر تعقل پسندی اور سنجیدگی سے غور کیا جائے گا تو پھر معاشرے میں امن و امان اور رواداری کی پر کیف فضا ہموار ہوگی۔
آ خر میں مصنف کا یہ اقتباس نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں ” یہ کتاب سنگھ – آ ر ایس ایس – بی جے پی اشتراک ، ہندوستان کے سیکولر حلقے بطور خاص کانگریس اور دونوں معاشروں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں میں موجود روشن خیال افراد کو سمجھنے ، ذاتی احتساب کرنے اور تجربہ کرنے کے لیے یقیناً وافر مواد پیش کرتی ہے‘‘