خراجِ عقیدت :محمد خالد اعظمی
سابق وزیر اعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ کی وفات نے گویا ان کی معاشی اور علمی خدمات کو یاد کرنے کا ایک اور موقع دیدیا ورنہ گودی میڈیا کی چکاچوند میں عوام تو ان کو تقریباً بھول ہی چکے تھے ۔ منموہن سنگھ جنہیں بجا طور پر ہندوستانی معاشی نظریات کا جان مینارڈ کینس (John Maynard Keynes) کہا جا سکتا ہے ، انہوں کے عین گرداب میں گھوم رہی ہندوستانی معیشت کی ڈوبتی کشتی کو ایک ماہر کھیون ہار کے اندازمیں جس طرح اپنے پیر پر کھڑا کیا اور عالمی معیشت اور تجارتی مسابقت کا سامنا کرنے کیلئے تیار کیا اس کارنامے کیلئے پوری دنیا کے ماہرین نے بجا طور پر ان کی خدمات کو سراہا۔ عین اس وقت جب ہندوستانی معیشت اپنی ترقی اور افزودگی کی بالکل نچلی سطح پر پہنچ گئی تھی اس کی بنیادی نظریاتی ساخت کو تبدیل کرکے عالمی سطح کی پیداواری معیشت بنانے اور ترقی کا نیا رخ دینے کے لئے انہیں بجا طور پر ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالمی ماہرین معاشیات کی صف میں کھڑا کیا جاتا ہے۔جس طرح سے کینس نے ۱۹۳۰ کی عالمی کساد بازاری سے عالمی معیشت کو باہر نکالنے کیلئے اپنے مشہور زمانہ نئے معاشیاتی نظریات پیش کئے اور ان نظریات نے پوری دنیا کی معیشتوں کو ترقی کا نیا راستہ دکھایا بالکل اسی طرح کا کارنامہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کا بھی ہے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ پر ان کے زمانے کے حزب اختلاف کے سیاستدانوں بے جا الزامات عائد کئے ، انہیں کبھی ربر اسٹمپ وزیر اعظم کہا گیا اور کبھی مَون موہن سنگھ کا لقب دیا گیا لیکن زمینی حقائق بالکل اس کے بر عکس تھے ۔ وہ اپنا فیصلہ خود لیتے تھے اور اپنی کابینہ اور اپنے ساتھیوں پر مکمل اعتماد کرتے تھے۔ ان کے زمانے وزراء اور افسران بااختیار ہوتے تھے، جس کا بعد کی حکومت میں فقدان رہا۔ مسلمانوں کے تعلق سے ان کا دور کسی خاص کام اور کارنامے سے خالی ہے۔ وہ سچر کمیٹی کی سفارشات ہوں، مسلمانوں کا رزرویشن ہو، گجرات اور گودھرا کے مجرمین کو سزا دینے کا معاملہ رہا ہو یا بٹلہ ہاؤس کے انکاؤنٹر اور اس کی آر میں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں رہی ہوں ہر موقع پر ان کا دور انصاف اور قانون کی پاسداری سے خالی نظر آتا ہے۔ تاریخ میں مسلمانوں کے تعلق سے منموہن سنگھ کا دور کسی خاص حصولیابی سے خالی اور انہیں نشانہ بنا کر ملک کے دیگر مسائل سے پہلو تہی کرنے کیلئے بھی جانا جائے گا۔
کسی ملک کے عوام کی ناسمجھی اور میڈیا سے متاثر ہوکر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لینے کی مثال ہم ہندوستانیوں پر بالکل فٹ ہوتی ہے جب ۱۹۱۴ کے عام انتخابات میں عوام نے انکا متبادل ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جو صرف گفتار کا غازی ثابت ہوا اور جس نے ملک کی معیشت کو پھر لگ بھگ وہیں پہنچا دیا جہاں سے آنجہانی ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اسے نکالنے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ ماہرین معاشیات کے ساتھ ہی وہ ایک زیرک سیاستدان بھی ثابت ہوئے جنہوں ہندوستانی عوام کو جمہوریت اور عوامی حقوق کی بازیابی اور ان کی آزادی کو برقرار رکھنے کیلئے کچھ ایسے قوانین پارلیامنٹ سے پاس کروائے جنہیں اس وقت عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی ۔ بنیادی معاشی اصلاحات کے علاوہ جو قوانین ہندوستانی عوام کو آزادی کے صحیح مفہوم سے آشنا کرنے میں کامیاب ہوئے ان میں حق اطلاعات کا قانون، حق تعلیم کا قانون، حق روزگار کا قانون ، غذائی تحفظ کا قانون، وغیرہ اتنے اہم اور بنیادی نوعیت کے ہیں کی اس کی مثال ترقی یافتہ ممالک میں بھی کم کم ملے گی۔
ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ اور سنجیدہ خیالات کے حامل ماہرین کی پذیرائی ذرا کم ہی ہوتی ہے، انہیں صرف تاریخ میں ہی جگہ ملتی ہے اور تاریخ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ بھی انصاف کرے گی۔ ہمارے یہاں زیادہ بولنے والے، لمبی لمبی ہانکنے والے اور کام سے زیادہ بات بنانے والے افراد معاشرے میں زیادہ اونچا مقام بنا لیتے ہیں خواہ وہ ملک سماج اور معاشرے کو آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے ہی لے جانے کا کام کیوں نہ کررہے ہوں۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہمارا شمار بھی انہیں لوگوں میں ہوتا ہے جہاں رفتار سے زیادہ گفتار کے غازی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ داکٹر منموہن سنگھ بات بہت کم کرتے تھے لیکن کام بہت زیادہ کرتے تھے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے ملک کو پھر ایسا کوئی قائد دیدے جو بات کرنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت و حفاظت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہوئے ملک کی خدمت کرے ۔