مصر اور اسرائیل کے درمیان ایک نیا قانونی تصادم دونوں ممالک کے درمیان انتہائی پرتشدد اور زبردست فوجی تصادم کے 35 سال بعد سامنے آیا ہے۔ یہ پیش رفت مصر کی طرف سے بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف دائر کیے گئے مقدمے کی حمایت کی صورت میں سامنے آئی ہے اور اس کیس میں مصرنے جنوبی افریقہ کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے غزہ جنگ میں اسرائیل پر جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزامات کی تائید کا اعلان کیا ہے۔
مصر کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں وضاحت کی ہے کہ مقدمے میں مداخلت کا اعلان غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی حملوں کی بڑھتی شدت اور جنگ کے دائرہ کار میں اضافے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں منظم فوجی کارروائیوں کے دوران شہری آبادی، فلسطینی عوام، شہریوں کو براہ راست نشانہ بنانے، پٹی میں بنیادی ڈھانچے کی تباہی، فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سےجبرا بے گھر کرنے، غزہ میں شہری آبادی کے لیے خوراک اور امداد کی آمد کےراستوں کو بند کرکے غیر مسبوق انسانی بحران پیدا کیا جس کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں ناقابل رہائش حالات پیدا ہوئے۔ جنگ کے دوران شہریوں کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی حقوق اور 1949ء کو منظور کردہ چوتھے جنیوا کنونشن کی شقوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے
مصرنے سلامتی کونسل اور بااثر بین الاقوامی فریقوں سے غزہ کی پٹی میں جنگ اور فلسطینی شہر رفح میں فوجی آپریشن بند کرنے اور فلسطینی شہریوں کو ضروری تحفظ فراہم کرنے کے لیے فوری ایکشن لینے کے مطالبے کا اعادہ کیا۔
مصراوراسرائیل کے درمیان نیا قانونی تصادم بین الاقوامی انصاف میں دونوں ممالک کے درمیان 35 سال بعد ہوا ہے۔ ساڑھے تین عشرے پیشتر مصر نے جنوبی سینا کا علاقہ طابا اسرائیل سے واپس لے لیا تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان طابا کا مسئلہ اپریل 1982 میں شروع ہوا اور مصر کی جانب سے سینا کی تمام اراضی دوبارہ حاصل کرنے کے بعد طابا کا علاقہ باقی رہ گیا جسے اسرائیل نے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔