مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات سے قبل سیاسی ہلچل کے دوران وزیر اعظم مودی نے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ایک نعرہ دیا ہے جس کی بازگشت پہلے بھی سنی گئی ہے۔وزیر اعظم مودی نے دھولے اور ناسک میں عوامی ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے جمعے کو کہا تھا کہ ‘ایک ہے، تو سیف ہے‘ یعنی ہم متحد ہیں تو محفوظ ہیں۔اسی طرح کا ایک نعرہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی مہاراشٹر میں دیا ہے کہ ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘، یعنی ہم منقسم ہوں گے تو مارے جائیں گے۔انھوں نے یہ نعرہ پہلے بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے تناظر میں اترپردیش میں دیا تھا اور پھر ہندو تہوار کے دنوں میں اترپردیش میں اس قسم کے بڑے بڑے پوسٹر نظر آئے جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے اس کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اسے منافرت پھیلانے سے تعبیر کیا گيا۔یہاں تک کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس نعرے سے بی جے پی اتحاد میں شامل نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے رہنما اجیت پوار نے کنارہ کشی اختیار کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے نعرے ’باہر سے آنے والے‘ لگاتے ہیں جبکہ ان کے مطابق مہاراشٹر میں ’ہمیشہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رہی ہے۔‘جبکہ کانگریس پارٹی کے صدر ملیکارجن کھرگے نے اس نعرے پر تنقید کرتے ہوئے ریاست جھاڑکھنڈ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اسے ’سڑا ہوا خیال‘ قرار دیا ہے۔
پی ایم مودی 20 نومبر کو ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کرنے والے مہایوتی یعنی بی جے پی، شیو سینا (شنڈے گروپ) اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (اجیت پوار گروپ) کے اتحاد کے امیدواروں کی مہم کے لیے مہاراشٹر میں ہیں۔
••بی جے پی نے یہ نعرہ کیوں لگایا؟
ریاست میں بی جے پی کا کہنا ہے کہ 180 تنظیمیں مسلمانوں کے درمیان بی جے پی کے خلاف بیداری پیدا کر رہی ہیں اور انھوں نے اسے ’ووٹ جہاد‘ کا نام دیا ہے۔اس کے جواب میں کانگریس کے رہنما بالا صاحب تھوراٹ نے خبررساں ادارے اے این آئی سے بات کرتے ہوئے بی جے پی پر تقسیم کی سیاست کرنے کا الزام لگایا۔
انھوں نے کہا کہ ’کانگریس نے کبھی ایک دوسرے سے نہیں لڑوایا۔ کانگریس نے کبھی مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر نہیں لڑوایا۔ بی جے پی ایسا کرتی ہے۔۔۔ اور بی جے پی نہایت ہی غلط طریقے سے کمپین کرتی ہےانھوں نے ’ووٹ جہاد‘ اور ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ کے انتخابی نعروں پر کہا کہ ’اگر یہ ووٹ جہاد ہے تو جب پیاز پر ووٹ دیا گیا تھا تو کیا اسے پیاز جہاد کہا جائے گا؟ اگر کسان ہمیں ووٹ کرتے ہیں تو کیا اسے کسان جہاد کہیں گے؟ اگر ہماری مائیں بہنیں ہمیں ووٹ کرتی ہیں تو کیا یہ ماں-بہن جہاد ہوگا؟‘
سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے بات ہو رہی ہے اور اس معاملے میں لوگوں کی آرا منقسم ہے۔ ہم نے اس کے متعلق سینیئر صحافی اور مصنف ضیا السلام سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ یہ ’انکلوژن کا نہیں ایکسکلوژن کا نعرہ ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ساورکر نے جو ’دی ادر‘ یعنی دوسرے مسلم اور کرسچن کی جو بات کہی ہے یہ نعرہ اسی کا عکاس ہےانھوں نے مزید کہا کہ ’اگر ایک ہیں تو پھر مندر میں پوجا کرانے کا حق سب کا ہونا چاہیے صرف پنڈتوں کا نہیں۔‘جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر پشپیش پنت نے کہا کہ’اگر واقعی ایک ہونے کی بات کرتے ہیں اور ہندو کے بھی ایک ہونے کی بات کرتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ ان سب کے اپنے اپنے مفادات منقسم رہنے میں شامل ہیں لیکن پھر بھی کوئی نہیں کہے گا کہ ہم ایک نہیں ہونا چاہتے