نئی دہلی:
جموں و کشمیر کے رہنماؤں کے ساتھ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کی میٹنگ کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ مرکزی حکومت مفاہمت کی راہ پر گامزن ہے اور وہ سیاسی کارروائی کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی نے اجلاس میں کہا کہ مرکز جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی کا پابند ہے، لیکن انہوں نے زور دے کہا کہ اس کے پہلے حدبندی کا کام ہو جانا چاہئے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے آج واضح کیا کہ جموں و کشمیر اسمبلی حلقوں کی حد بندی کا عمل مکمل ہونے کے بعد وہاں انتخابات ہوں گے۔ مسٹر مودی نے یہ اطلاع یہاں سیاسی جماعتوں کے ساتھ جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے کے لئے آج یہاں بلائے گئے ایک جماعتی اجلاس میں دی۔
اجلاس میں کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد ، نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں فاروق عبد اللہ اور عمر فاروق اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی ، بی جے پی کے چمن لال اور جموں و کشمیر کی دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔وزیر اعظم کے علاوہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ ، وزیر دفاع راجناتھ سنگھ ، وزیر اعظم آفس میں وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ ، وزیر اعظم کے پرنسپل ایڈوائزر ، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال ، جموں کشمیر لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور متعدد دیگر اعلی عہدیداروں نے اس اہم اجلاس میں شرکت کی۔
خبروں کے مطابق میٹنگ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ وہ دہلی کی دوری اور دل کی دوری کو کم کریں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کا مستقبل بہتر بنانے کا راستہ نکالا جائے گا اور اسمبلی حلقوں کی حد بندی کا عمل پورا ہوتے ہی انتخابات کرائے جائیں گے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے میٹنگ کے بعد ٹویٹ کرکے کہاکہ ہماری جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہم بیٹھ کر آپس میں بات کر سکتے ہیں ۔ انہوں نےایک دوسرے ٹویٹ میں کہاکہ ہماری ترجیح جموں وکشمیر میں زمینی سطح پر جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے ۔ حدبندی ہونا چاہئے تاکہ اس کے بعد انتخابات کرائے جاسکیں۔
تقریبا ًساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہنے والی اس میٹنگ کے بعدنیشنل کانفرنس کے لیڈر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے حدبندی کے مدعے پر اتفاق کیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ حدبندی کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں ہے، اس معاملے میں ملک کی باقی ریاستوں سے جموں وکشمیر کو الگ تھلگ کر دیا گیا ہے ، لیکن انہوں نے یہ بھی کہاکہ ان کی پارٹی حد بندی میں تعاون کرنے کو تیار ہے۔ عمر عبداللہ نے کہاکہ ایک میٹنگ سے ہی تمام مسائل کاحل نہیں نکل سکتا۔ عمر نے کہاکہ ’د لی اور دل کی دوری‘ کم کرنے کے لیے مرکزی حکومت کو ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ، صرف کہنے یا میٹنگ سے ہی یہ نہیں ہو جائے گا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی نے کہا کہ ان کی پارٹی آرٹیکل 370 کے مدعے پر کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرے گی ، مرکزی حکومت نے اگست 2019 میں غیر قانونی طور پر اسے ختم کردیا اور اس سے پہلے کسی سے رضامندی نہیں لی۔ یہ کشمیریوں کی شناخت کا معاملہ ہے ، پی ڈی پی آئینی طریقے سے اس کی بحالی کے لئے جدوجہد جاری رکھے گی۔
پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد لون نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ وہ وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد بہت مثبت محسوس کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میٹنگ میں انہوں نے حکومت کو بتایا کہ ان کے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ پچھلے ڈیڑھ سال میں کیا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میٹنگ میں دل کی باتیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ میٹنگ محض آغاز ہے اور طویل مدت کے بعد کشمیریوں کا درد کم ہوگا۔
میٹنگ ختم ہونے کے بعد کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے میڈیا کو بتایا کہ ’بہت ساری باتیں وزیر اعظم کو بتائی گئیں ہم نے جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ واپس دئے جانے کا مطالبہ بھی کیا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے پانچ بڑے مطالبات پی ایم مودی کے سامنے رکھے۔ ریاستی درجہ کی از سر نو بحالی کا مطالبہ، تقسیم کی مخالفت، کشمیری پنڈتوں کی باز آبادکاری کا مطالبہ، سیاسی لیڈروں کی حراست، زمین اور روزگار گارنٹی کا مطالبہ۔‘
جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے الطاف بخاری نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ بات چیت انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی ۔ وزیر اعظم نے تمام رہنماؤں سے صبر سے ہمارے معاملات سنے۔ انہوں نے کہا کہ حد بندی کا عمل ختم ہونے کے بعد انتخابات کا آغاز ہوگا۔
میٹنگ کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز کانفرنس کے مظفر بیگ نے بھی تقریباً یہی بات کہی۔ بیگ نے کہاکہ حدبندی کمیشن بن چکا ہے ،یہ کام کررہا ہے، اس کام کے لیے وقت کا تعین نہیں کیا جاسکتا ہے، لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کب حد بندی کا کام پورا ہوگا اور کب ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا۔