نئی دہلی (آر کے بیورو)
مسلمانوں کا باوقار،معتبر امارت شرعیہ جیسا قدیم معروف ادارہ ایک بار پھر سرخیوں میں ہے ـ قیادت اور بالادستی کی لڑائی اس کی شبیہ کو متاثر کرسکتی ہے -بتایا جارہا ہے کہ موجودہ امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کے خلاف ان کے سابق وفادار اور ناظم رہے مولانا شبلی قاسمی وغیرہ نے ‘بغاوت’ کردی ہے ،جنھوں نے مولانا رحمانی کو امیر شریعت بنانے میں اہم رول ادا کیا تھا ،اس ‘بغاوت’ میں ان کے ساتھ امارت کے سابق سینئیر اراکین مولانا ابو طالب رحمانی ،مولانا انیس الرحمن قاسمی ،مولانا عبد الروف وغیرہ قابل ذکر ہیں ـ عینی شاہدین نے بتایا کہ ان لوگوں کے ساتھ جے ڈی یو کے ایک ممبر اسمبلی اور ایک سابق ایم پی بھی دیکھے گیے جس سے اس نیے قضیہ میں حکمراں پارٹی کی دلچسپی پر انگلی اٹھائی جارہی ہے۔ ـ ،روزنامہ خبریں نے مولانا فہد رحمانی ،مولانا انیس الرحمن قاسمی سے رابطہ کی بہت کوشش کی تاکہ افواہوں اور فیک نیوز کے طوفان میں فریقین سے گفتگو صحیح تصویر پیش کرنے میں مدد کرے مگر کوئی فون نہیں اٹھا سکا ـ وہاں کے جرنلسٹ بھی خبر کے اندرون تک نہیں پہنچ پارہے ہیں چنانچہ سوشل میڈیا ہر ناقابل یقین خبریں چل رہی ہیں مگر ایک بات صاف ہے کہ امارت شرعیہ میں کچھ بھی ٹھیک ٹھاک نہیں ہے اور وہ ایک نیے بحران سے بظاہر دو چار ہوتا نظر آرہا ہے ، بہار کے ایک جرنلسٹ کا کہنا ہے کہ مولانا شبلی قاسمی کو حال ہی میں نظامت سے ہٹایا گیا تھا یہ چنگاری اسی وقت سے سلگ رہی تھی ،بدقسمتی سے امارت کے انتخاب کے وقت بھی ایسے مناظر سامنے آئے تھے اور ناخوشگوار واقعات کا ملت نے مشاہدہ کیا تھاـ

اسی دوران امارت میں ریسرچ ورک ٹیم کے رکن مولانا قیام الدین قاسمی نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ مخالف گروپ کے لوگوں نے ڈی ایم سے شکایت کی کہ بعض غیر سماجی عناصر امارت شرعیہ کے دفتر میں ہیں جن کی وجہ سے امن میں خلل پڑ سکتا ہے ،جس کے بعد وہاں پولیس فورس آگئی ، آزاد ذرائع سے ان کے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہوسکی ـ کئی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر ہیں جن میں بھاری پولیس فورس نظر آرہی ہے ـاب یہ معاملہ کیا رخ لے گا کچھ کہنا مشکل ہے ـیہ خبر گرم ہے کہ مولانا انیس الرحمن قاسمی پھر امارت شرعیہ کی خدمات کے لیے خور کو انگیج کرنا چاہتے ہیں جو ملی کونسل کے نائب صدر اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی عاملہ کے رکن بھی ہیں ـ چونکہ اس تنازع کے شریک کئی بزرگان بورڈ کے سینئر رکن بھی ہیں ،اس لئے یہ بھی کہا جارہا ہے بورڈ اس کو سلجھانے میں دلچسپی لے مگر یہ تنظیم کا داخلی معاملہ ہے جس میں مداخلت نہ بورڈ کا اختیار ہے اور نہ ہی دائرہ کار اس کی اجازت دیتا ہے ـ بورڈ کے ایک سینئیر رکن نے کہا کہ بورڈ کا اس معاملہ سے کوئی لینا دینا نہیں ـ
ایسے نازک وقت میں اختلافات اورلڑائی جھگڑے کی خبریں بہت افسوس ناک ہیں اور جگ ہنسائی والی ہیں معلوم ہوا ہےکہ امیر شریعت اعتکاف میں تھے مگر حالات کی سنگینی محسوس کرکے پٹنہ آگیے ہیں اور باہمی مشاورت میں مصروف ہیں
دریں اثنا کچھ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس معاملہ کا سیاسی پہلو بھی ہے ،ان کے مطابق افطار پارٹی کے کامیاب بائیکاٹ اور بورڈ کے دھرنا و مظاہرہ میں امارت کی سرگرم شرکت اور فعال رول سے جے ڈی یو سخت ناراض ہے اور وہ امارت کو ‘سبق’ سکھانا چاہتا ہے ،اس معاملہ میں جے ڈی یو کے ایک ممبرا اسمبلی ، ایک سابق ایم پی اور دیگر کی موجودگی و دلچسپی اس الزام کو ہوا دے رہی ہے ـ ریاستی سرکار پر بھی انگلیاں اٹھ رہیں ـ جے ڈی یو کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پوزیشن صاف کرے ـ ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ امارت شرعیہ میں ہائے جانے والے اندرونی اختلافات اور چپقلش کو عذر کی چادر کے نیچے ڈھکنے اور اصل معاملہ سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے اور اس کا بائیکاٹ اور دھرنے سے کوئی لینا دینا نہیں ـ جبکہ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ بہار اسمبلی کے الیکشن سر پر ہیں اور امارت شرعیہ گہرے اثرات رکھتی ہے اس کی ناراضگی اور مخالفت جے ڈی یو کے لیے مہنگی پڑ سکتی ہے ـ لیکن یہ سب قیاسات ہیں ،ہر لمحہ صورتحال غیر یقینی ہوتی جارہی ہے کون سا گروپ حاوی رہتا ہے یا اس بحران پر افہام وتفہیم کے ذریعہ قابو پالیا جاتا ہے آنے والے وقت میں واضح ہوجائےگا ـ ـ اب خبر ہے ہے کہ مقامی لوگوں نے معاملہ فی الحال رفع دفع کردیا ہے ـ ۔ موجودہ قیادت کے ‘مخالفین’اور پولیس کیمپس سے چلے گیے ہیں ,لیکن افواہوں کا بازار لگاتار گرم ہے ـ
دریں اثنا امارت کی ارباب حل وعقد کمیٹی کے ممبر اور بہار کی معروف علمی شخصیت مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی گفتگو کے دوران صورتحال پر گہرا افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ ان کی غیرملکی شہریت کا کوئی سوال ہے تو اسے قانونی طور پر حل کیاجانا چاہیے ،امارت کا دستور ہے ،شوری ہے کوئی اختلاف ہے تو اس کو حل کرنے کا یہ طریقہ نہیں ہے ،انیوں نے کہا کہ ملت بہت نازک دور سے گزر رہی ہے اور ہمیں مل جل کر چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے – وقف بل مخالف تحریک کو ایسی سرگرمیوں سے نقصان پہنچ سکتا ہے ـ آنے والے دنوں میں یہ صاف ہو جائے گا کہ اس کھیل میں مہرے کون تھے،کھلاڑی کون تھے پیچھے سے ڈور کون ہلاریا تھا اور ترپ کا پتہ کس کے ہاتھ لگا