تحریر: فاروق ارگلی
25،گنیش پارک، رشید مارکیٹ، دہلی-51
ای میل: [email protected]
اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے ادبی وغیرادبی، معیاری اور بازاری لٹریچر کی بحث کو الگ رکھ کر صرف یہ سوچیں کہ ہلکے پھلکے، دلچسپ اور تفریحی قصے کہانیاں، سنسنی خیز، حیرت ناک جاسوسی اور دلوں کو گدگدا دینے والے رومانی سماجی ناول وغیرہ لکھنے والوں کی کاوشوں نے درحقیقت ہماری زبان اور تہذیب کے فروغ میں اعلیٰ بھاری اور معیاری کہے جانے والے ادب سے کہیں زیادہ نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ بیسویں صدی میں جب تک انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب نہیں آیا تھا، عوام الناس کی ذہنی تفریح و تسکین کا واحد ذریعہ بالعموم ناولوں اور کہانیوں کا مطالعہ ہی تھا۔ اس دور کی اسی ضرورت نے عوامی ناول نویسی کے شعبے کو ترقی کے بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ رومانی، سماجی، تاریخی، مہماتی، طلسمی اور جاسوسی ناول لکھنے والے ایسے قلمکار نمودار ہوئے جن کی تحریروں نے قبولیت عامہ کی بے مثال تاریخ مرتب کردی۔ ایسے لاتعداد فنکاروں نے لاکھوں پڑھنے والوں کو متاثر کیا۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ ناول نگاری انڈسٹری بن گئی اور ناول کا شمار زندگی کی اشیائے ضروریہ میں ہونے لگا۔ اس دور میں جاسوسی ناول نویسی کو کچھ زیادہ ہی عروج حاصل ہوا۔ ابن صفی اور ان کے لاتعداد چھوٹے بڑے معاصر اُردو کی عصری تاریخ کا ناقابل فراموش باب کہے جاسکتے ہیں۔ یہاں اگر صرف جاسوسی اور اسرار و سراغ رسانی کے ناولوں کی بات کی جائے تو ابن صفی اور ان کے معاصرین و مقلدین نے اُردو کے اس سب سے بڑے عوامی فن کو جس منزل تک پہنچایا اس کا راستہ جن عظیم قلم کاروں نے تعمیر کیا انمیں سب سے پہلا نام ’نیلی چھتری والے‘ ظفرعمر بی۔اے کا ہے اور ان کے ساتھ ہی جس عہد ساز شخصیت نے اس جہت میں اب تک کا سب سے اہم اور سب سے بڑا کارنامہ انجام دیا اس کا نام ہے منشی تیرتھ رام فیروزپوری۔
یوں تو اُردو ناول نگاری اور افسانہ نویسی کا چلن ہندوستان پر مغربی تسلط کے بعد شروع ہوا۔ اسرار و سراغ رسانی اور حیرت و استعجاب سے پرتفریحی لٹریچر بھی مغرب کی دین ہے اور اس عہد کے مغرب کے مشہور عالم اور مقبول ترین لٹریچر کا مکمل انتخاب اس خوبی کے ساتھ اُردو میں منتقل کردیا کہ اگر بڑے بڑے ناموروں کی طرح لفظی بازی گری سے نئے سانچے میں ڈھال کر پیش کردیا ہوتا تو اُردو کے سب سے بڑے مصنف مان لیے جاتے، لیکن انھوں نے بڑی علمی دیانت داری کے ساتھ انگریزی تخلیقات کو اُردو کا لباس اس طرح پہنایا کہ ان کے خدوخال اور صورت و شکل میں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔ منشی تیرتھ رام فیروزپوری یقینا اُردو کے ایسے ترجمہ نگار ہیں جن پر بہت سے نام نہاد اوریجنل لکھنے والے نچھاور کیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے عالمگیر شہرت و مقبولیت کے حامل مغربی ادیبوں کے شاہکار اُردو میں ترجمہ کیے لیکن اس سلاست، فصاحت، بلاغت اور روانی کے ساتھ کہ تراجم میں طبع زاد تخلیق کی شان پیدا ہوگئی۔ منشی جی کی اس خصوصیت نے انھیں نصف صدی تک برصغیر کا سب سے بڑا اور سب سے مقبول ادیب بنادیا۔ انھوں نے سو سے زیادہ انگریزی کے ضخیم ناولوں کا ترجمہ کرکے اُردو کو نہ صرف مالامال کیا بلکہ لاکھوں اُردو والوں کو مغربی دُنیا کی سچی تصویر دِکھائی۔ اُس دنیا کے انسانوں کی زندگی، ان کا رہن سہن، ان کی ذہنی کیفیت، سماجی، علمی اور فکری شعور، ان کی اچھائیاں، ان کی برائیاں، ان کی ذہانت، ان کی فطانت، مکاریاں، عیاریاں، ان کے کردار کی بلندی اور ان کی شیطنت، سب سے اس عہد کے عظیم ادیبوں کے شہپاروں کی وساطت سے اُردو دُنیا کو متعارف کرادیا۔ منشی تیرتھ رام فیروزپوری کے تراجم میں پورا مغرب واضح ہوکر اُردو دُنیا کے سامنے آگیا ہے۔ تفریحی لٹریچر کے وسیلے سے منشی جی نے ہندوستان کی تہذیبی تاریخ میں جو مقام حاصل کیا، وہ ہماری ادبی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔ منشی جی کو یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ ان کے قارئین میں صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ علما، فضلا، اساتذہ ، افسرانِ اعلی، رؤسا، امرا یہاں تک کہ سربراہانِ مملکت تک شامل تھے۔ وہ اُردو کے پہلے ادیب تھے جن کے مترجمہ ناولوں کے مستقل خریدار تھے، جو ناشر کے پاس پیشگی رقم جمع کروا دیتے تھے، ان کے سب سے پہلے اور خاص ناشر میسرز نرائن دت سہگل اینڈ سنز لاہور ایک معمولی اشاعت گھر تھا جو صرف ان کے ناولوں کی آمدنی سے برصغیر کا امیرترین اشاعتی ادارہ بن گیا۔
منشی تیرتھ رام فیروزپوری کس قدر زود نویس تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سالہا سال تک ماہوار رسالے کی طرح ان کے ضخیم ناول شائع ہوتے رہے جبکہ وہ کمپیوٹر کا زمانہ نہیں تھا، ہاتھ سے کتابت کا مرحلہ کس قدر دشوار امر تھا۔ منشی جی نے سو سے زیادہ عالمگیر سطح کے ناولوں کو اُردو لباس پہنایا، جن میں ایلن ایوارڈ کا مشہور ناول ’اکیوزڈ پرنس‘ ’لعل مقدس‘ کے نام سے، ڈبلیو کلارک کا ’اِزہی دی مین‘ ’ستم ہوشربا‘، مارلیبانگ کا ’ریٹرن آف آرسین لوپن‘ بعنوان ’دغا کا پتلا‘۔ اسی مصنف کا دوسرا ناول ’جم بانٹ‘ آرسین لوپن جاسوس کے نام سے، الیگزینڈر ڈومش کا مقبول ترین ناول ’ایجنٹس‘ ’وطن پرست‘ کے نام سے، ریچرڈ ہنری کا شہرۂ آفاق ناول ’مائی آفیشیل وائف‘ ’نازک کٹار‘ کے عنوان سے، میری رینہارٹ کے عظیم ناول ’جوزف ولٹ‘ کا ترجمہ ’گردشِ آفاق‘ منشی تیرتھ رام کا تاریخی کارنامہ ہے۔ یہ انگریزی کے ضخیم ترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ اُردو میں یہ ناول 28 ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح جارج ڈبلیو ایم رینالڈ کے ناول ’مسٹریز آف لندن‘ کو منشی جی نے ’فسانۂ لندن‘ کے عنوان سے 22 جلدوں میں پیش کیا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے بڑی خوشی محسوس ہورہی ہے کہ میں نے ’گردشِ آفاق‘ اور ’فسانۂ لندن‘ کے کچھ حصے حضرت مولانا حسرت موہانی کے برادرِ محترم سیّد روح الحسن موہانی کے صاحبزادے سیّد ضیاء الحسن موہانی سے مستعار لے کر پڑھے تھے، ان کی الماری میں دونوں ناولوں کے پورے سیٹ موجود تھے، اس ذکر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کتابیں مولانا حسرت موہانی کی ذاتی لائبریری سے لائی گئی تھیں۔ ظاہر ہے کہ مولانا موصوف جیسی شخصیت بھی منشی تیرتھ رام فیروزپوری کے قارئین میں شامل تھی۔ منشی جی کے مقبول ترین تراجم میں ’لنگڑا جاسوس‘، ’تہ خانے کا راز‘، ’خونی شیطان‘، ’دیوتا کی آنکھ‘، ’وادیٔ خوف‘، ’انمول ہیرا‘، ’دستِ قضا‘، ’کالی نقاب‘، ’خونی دلہن‘، ’خنجرِ بے داغ‘، ’حورِ ظلمات‘، ’نولکھا ہار‘، ’بڑا بھائی‘، ’تلافیِ گناہ‘، ’سرابِ زندگی‘، ’کرنی کا پھل‘، ’مقدس جوتا‘، ’پیلاہیرا‘، ’وفا کا پتلا‘، ’آزادی‘، ’انقلاب‘، ’تلاشِ اکسیر‘، ’نقلی نواب‘، ’شاہی خزانہ‘، ’سانپ کی چوری‘، ’ویران محل‘، ’شامتِ اعمال‘، ’خوفناک جزیرہ‘، ’بلیک شرٹ‘، ’بلیک شرٹ کی واپسی‘، ’ڈاکٹر نکولا‘، ’ڈاکٹر فومانچو‘ اور ’پاداشِ عمل‘ وغیرہ آج بھی بار بار پڑھے جانے کے قابل ہیں۔
منشی تیرتھ رام فیروزپوری کا ایک دلچسپ ترین ناول تادم تحریر میرے سامنے ہے، جس کا اُردو عنوان ہے ’للتا عرف گمنام مسافر‘۔ یہ معروف برطانوی مصنف ولیم لیک کے مشہور ناول ’سائن آف اسٹرینجر‘ کا ترجمہ ہے۔ ناول کے مختصر دیباچے میں ولیم کا تعارف منشی جی اس طرح کراتے ہیں:
’’خدا نے اس کی طبیعت میں جو آمد بخشی ہے اس کا حال کیا کہیے، بلامبالغہ افسانوں کے دریا بہادیے ہیں، شاید عمربھر اس کے ناولوں کا ترجمہ کرتا رہوں تو کافی نہ ہوگا، کسی انگریزی رسالہ نے اس کی ایک تصنیف کا ریویو کرتے ہوئے کیا خوب لکھا تھا کہ ان کی تصانیف کا سلسلہ لندن کے بازار میں موٹروں کی قطار سے ملتا ہے۔ دونوں لامتناہی ہیں۔‘‘
’للتا عرف گمنام مسافر‘ کی ہیروئن لندن کی ایک حسین و جمیل رئیس زادی ہے، جو ایک بہت بڑی سازش میں گھری ہوئی ہے۔ ایک دن ایک مسافر اس گھر کا ملازم بن جاتا ہے اور حسینہ سے دوستی ہوجاتی ہے۔ ایک دن وہ اس حسینہ سے اظہارِ محبت کر بیٹھتا ہے، ناول گمنام مسافر کی آپ بیتی کے اسلوب میں ہے، اظہارِ محبت کے بعد ہیرو کی خودکلامی:
’’جوش، خطرہ اور عشق میں آدمی حفظ مراتب بھول جاتا ہے، اس وقت یہ الفاظ کہتے ہوئے خیال میں نہ آیا کہ ہماری مجلسی حالتوں میں کتنا فرق ہے، کہاں وہ ایک معزز خاندان کی دخترعزیز، ایک امیر ابن امیر کی اکلوتی بہن، کہاں میں، گھر کا ایک معمولی ملازم اور اس پر یہ دعوائے محبت۔ اسی لیے تو عشق کو اندھا کہا جاتا ہے… وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی، گو اس کا تبسم بہت پھیکا اور اُداس تھا، اس کی آنکھیں آبگوں نظر آئی تھیں، ہونٹ بے اختیار حرکت کررہے تھے، میرا خیال ہے کہ وہ اس بیان سے متعجب ہوتی ہوگی، کیونکہ آج تک وہ مجھے اپنا دوست اور رفیق سمجھے ہوئے تھی، میری عاشقی کا راز اسے معلوم نہ تھا۔‘‘
یہ مکالمہ ظاہر کرتا ہے کہ منشی جی کے ترجمہ میں کتنی برجستگی اور روانی ہے۔
ان کا ایک دلچسپ ترین ناول ہے ’سرفروش‘ جو بیحد مقبول رائٹر لسلی چارٹرس کی تصنیف ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ایک سینٹ کے روپ میں برطانیہ کا شاطر مجرم ہے۔ ناول کا آغاز اس خوفناک مجرم کے تعارف سے اس طرح ہوتا ہے:
’’جو لوگ روزانہ اخبارات میں جرم و تعزیر کی خبریں اکثر دیکھا کرتے ہیں اور ان سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں انھوں نے کسی نہ کسی موقع پر نامی مجرم ’سنت‘ کا نام ضرور پڑھا ہوگا۔ ہمارے ملک کے سادھو سنت مہاتما نہیں، گوفی زمانہ ان میں بھی ننانوے فیصد ٹھگ ہیں، بہرحال اس جگہ مراد کسی اور سنت سے ہے جس کا یہ نام کسی اولیائی یا کرامات کی وجہ سے نہیں، بھگوے بھیس کی وجہ سے بھی نہیں، کسی اور ہی سبب سے ہے، جس کا ذکر کتاب میں حسب موقع آئے گا، ورنہ ہے وہ انگریز بچہ اور ماں باپ نے اس کا نام ٹمپلرس رکھا تھا لیکن عرف عام میں وہ سینٹ یا سنت مشہور ہے۔ واقعاتی دُنیا میں اس کا ذکر بیشتر اسی نام سے ہوتا ہے۔‘‘
راقم السطور کے ہم عمر یعنی سات دہائیاں پار کرچکے اصحاب و خواتین میں ابھی بہت سے لوگ زندہ ہیں جنھوں نے منشی تیرتھ رام کے تراجم اسی دلچسپی سے پڑھے ہیں جیسا کہ ابن صفی کے لاتعداد قارئین کا حال ہے کہ ان کے ناولوں کے مکالمے تک یاد ہیں۔ میں نے بھی منشی جی کو پڑھا ہے، اس عمر میں جب قوتِ حافظہ بھی تھکنے لگی ہے پھر بھی ان کے بعض ناولوں کی کہانیاں یاد ہیں۔ جانے کس سال میں پڑھا ہوگا، رینالڈ کے کسی ناول کا ترجمہ تھا’ حسن کا جادو‘ سرورق پر لکھی یہ عبارت جیسے اب تک ذہن پر نقش ہے۔ ظلماتِ عصیاں میں ڈوبی ہوئی ایک خودپرور حسینہ کی داستان جس کا ہمہ سوز عشق خود اس کی اور ایک نیک مرد کی تباہی کا موجب بن گیا۔ جے ایس فلیچر کا ناول ’اسیربلا‘ اور بروس گرائم کا ناول ’فرشتہ انتقام‘ بھی ناقابل فراموش رہا کیونکہ اس کی کہانی ہندوستانی فلموں جیسی تھی، ایک خوفناک نوجوان مجرم ایک خوبصورت حسینہ کے عشق میں گرفتار ہوکر برائی سے تائب ہوجاتا ہے اور اس جیسے تمام مجرموں کو ختم کردینے کا عزم کرلیتا ہے۔ ہیروئن کے باپ کو ایک بدمعاش اغوا کرلیتا ہے اور اس کے سامنے رہائی کی یہ شرط رکھتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردے۔ ہیرو محبوبہ کے باپ کو آزاد کرانے کے لیے جان کی بازی لگا دیتا ہے۔ اس کام میں وہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے چکر میں بھی پھنس جاتا ہے لیکن بالآخر وہ کامیاب ہوتا ہے۔ ایک اور ناول کی کہانی یاد آتی ہے جس کا نام ’کالی نقاب‘ تھا۔ یہ کہانی بھی تھوڑے ردّوبدل کے بعد فلموں میں آچکی ہے کہ سیاست اور شرافت کے پردے میں کچھ لوگ غیراخلاقی اور غیرقانونی کاموں میں ملوث ہوکر سماج میں گندگی پھیلا رہے ہیں۔ کہانی کا ہیرو جب یہ دیکھتا ہے کہ قانون ان سفید پوش بدمعاشوں کے آگے بے بس ہے تو وہ ایک نقاب پوش گروہ ترتیب دیتا ہے اور برے لوگوں کا صفایا شروع ہوجاتا ہے۔ پولیس قانون ہاتھ میں لینے والے نقاب پوشوں کو پکڑنے کی جدوجہد میں ہے، نقاب پوش گروہ ایک خطرناک بین الاقوامی مجرم تنظیم سے ٹکراجاتا ہے۔ ہیرو کی کامیابی کے بعد کالی نقاب والوں کی نیک نیتی کا راز حکومت کو معلوم ہوتا ہے۔ میری پسندیدہ کتابوں کے ذخیرے میں منشی جی کی ایک غیر جاسوسی کتاب ’شمع و پروانہ‘ مطبوعہ 1945ء آج بھی موجود ہے جو 164 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کے ٹائٹل پر لکھا ہے:
’’عشق صادق، وفائے عظیم اور ہجر و وصال کے چند افسانے۔‘‘ یہ کتاب ترجمہ نہیں بلکہ مطالعے کی بنیاد پر منشی جی کی طبع زاد تصنیف ہے جس میں ہیررانجھا، شیریں فرہاد، انٹونی قلوپطرہ، نورجہاں جہانگیر، کمال اتاترک اور لطیفہ خانم اور دیگر محبت کرنے والوں کی مختصر داستانِ عشق بیان کی گئی ہے۔
قلم کے اس بادشاہ کا جنم 1885ء میں فیروزپور (مشرقی پنجاب) میں ہوا تھا۔ ابتدائی تعلیم اُردو، فارسی اور ہندی میں پائی پھر انگریزی اسکول میں داخل ہوئے۔ یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ انھوں نے کالج میں کہاں تک تعلیم حاصل کی البتہ یہ پتہ چلتا ہے کہ اُردو ادب و صحافت سے دلچسپی زمانۂ طالب علمی سے ہوگئی تھی۔انگریزی ناول پڑھنے کے بے پناہ شوق کی وجہ سے اس زبان پر ایسی دسترس اور مہارت حاصل ہوگئی جیسے وہ ان کی مادری زبان ہو۔ عنفوانِ شباب میں ہی لاہور چلے گئے، جہاں سے انھوں نے ایک ماہانہ ادبی جریدہ ’ترجمان‘ شائع کرنا شروع کیا لیکن تجارتی ذہن نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام خسارے کا باعث بن گیا۔ رسالہ بند ہوا تو انھوں نے انگریزی ناولوں کا ترجمہ کرنا شروع کردیا۔ کامیابی کے آثار روزِ اوّل سے ہی نظر آنے لگے تھے۔ مقبولیت بڑھتی گئی اور منشی جی نے اس شغل کو زندگی کا مقصد بنالیا۔ تقسیم کے بعد وہ واپس ہندوستان آگئے۔ تقسیم سے پہلے تک ناولوں میں ان کا پتہ 311، رام گلی لاہور چھپا کرتا تھا، 1947ء کے بعد ان کے پبلشر نے اپنا کاروبار محلہ تھاپران جالندھر شہر سے جاری کیاتو منشی تیرتھ رام فیروزپوری نے بھی جالندھر میں سکونت اختیار کی۔ 1954ء میں ان کے انتقال تک ان کا پتہ تھا: 236-اسلام آباد، متصل اڈّا بستیان، جالندھر شہر۔
منشی تیرتھ رام فیروزپوری نے ایک مترجم ہوتے ہوئے بھی ایک صاحبِ طرز ادیب اور تخلیق کار کی حیثیت سے ناموری اور عزت حاصل کی۔ جن دنوں کمال امروہی بامبے ٹاکیز سے وابستہ تھے انھوں نے منشی جی کے نام ایک خط میں لکھا تھا: ’’ایک زمانہ سے آپ کے تراجم کے مطالعہ کی سعادت حاصل ہے، گویا جب سے ادبی ذوق کا آغاز ہوا آپ سے دلچسپی رہی اور آپ کی ہر نئی کتاب کے اعلان کے بعد اس کے مطالعہ کا اشتیاق رہا۔ بے شبہ آپ کا کام اُردو ادب میں زرّیں اور آپ کا انتخاب لائق صد تحسین ہے۔ ایک مدت سے سوچ رہا ہوں کہ آپ کو فلم کی طرف بھی توجہ دینے کے لیے تحریک کروں۔‘‘ (ناول ’اسیرِبلا‘ میں پیغامات، ص279)qq