تحریر: آشوتوش کمار سنگھ
سوشل میڈیا جوائنٹ فیس بک ایک بار پھر غلط وجوہات کی بنا پر خبروںمیں ہے۔ دنیابھر کے اہم میڈیا آؤٹ لیٹس نے سابق فیس بک ملازم فرانسس ہوگن کےذریعہ لیک کئے گئے کمپنی کے داخلی دستاویزات کی بنیاد پر نئی رپورٹ شائع کی ہے ، جس سے فیس بک پیپرس نام دیا جارہاہے۔ مانا جا رہا ہے کہ فیس بک کی اتنی فضیحت پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ ’فارچیون ‘ کے مطابق ’’ فیس بک پیپرس‘‘ میں اگلے 6 اور ہفتوںکے دستاویزات اور مضامین کا سامنے آنا باقی ہے ۔
امریکی نیوز میگزین ٹائم نے اپنے تازہ ایڈیشن کے کور پیج پر فیس بک کے چیئرمین اور سی ای او مارک زکربرگ کی تصویر شائع کی ہے جس میں پوچھا گیا ہے کہ’ ‘فیس بک‘ کو ڈیلیٹ کردیا ہے؟ اسےاپنے آپ میں ایک بڑا اسسٹمنٹ مانا جا رہاہے۔
22 اکتوبر کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے جعلی خبروں کے پھیلاؤ میں فیس بک کے کردار پر ایک رپورٹ شائع کی، جس کے مطابق اس نے امریکی کیپٹل میں 6 جنوری کو ہوئے مہلک فسادات کو ہوا دینے میں اس نے مدد کی۔
ہفتہ 23 اکتوبر کودی نیویارک ٹائمس اور دی وال اسٹریٹ جنرل ۔ دونوں نے فیس بک کےسب سےبڑے بازار ،بھارت میں فیس بک پر ہیٹ اسپیچ اورفیک نیوز کے بارے میں اسٹوری شائع کی۔
رپورٹس کے مطابق فیس بک نے دو سال قبل بھارت میں ٹیسٹنگ کے لیے اکاؤنٹ بنایا تھا۔ اس اکاؤنٹ کے ذریعے، فیس بک نے جانا کہ کس طرح اس کا اپنا الگورتھم نفرت انگیز تقریر اور فیک نیوز کوفروغ دے رہا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے بعد بلومبرگ اور این بی سی نیوزاسٹوری شائع کی۔ اس کےبعد 25 اکتوبرکو دی ایسوسی ایٹڈ پریس ، دی آؤٹ لنک سمیت سی این بی سی ، سی این این، پولیٹکو ، دی ورج اوروائرڈ جیسے تمام آؤٹ لیٹس نے فیس بک کے پلیٹ فارم سے ہیٹ اسپیچ اورفیک نیوز کو بڑھاوا ملنے سے جوڑی تفصیلی اسٹور کو شائع کیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ 25 اکتوبر کو وِہسل بلوئر فرانسس ہوگن نے برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کیا تھا۔ اس کے علاوہ برطانیہ کے ایک خیراتی ادارے نے 25 اکتوبر کو اطلاع دی کہ پولیس نے 2017 سے فیس بک کی ملکیتی ایپس پر بچوں کے ہزاروں جرائم کی اطلاع دی ہے اور کمپنی سے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات پر اپنی داخلیتحقیق کو ظاہر کرنے کو کہا ہے۔
وسیع تر معنوںمیں مسئلہ یہ ہے کہ کیا فیس بک پر اپنی سماجی ذمہ داری اور کاروباری مقاصد کو ایک متوازن رکھنے کے لیے بھروسہ کیا جاسکتا ہےاورکیا اس نے خطرناک مواد کے سیلاب کو روکنےکےلیے کچھ کیاہےجو اس کےمختلف سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز پر پھیل رہاہے ۔
(بشکریہ:دی کوئنٹ)