تحریر: عبدالسلام عاصم
نظریاتی الزام اور جوابی الزام کے اندھیرے میں اندازہ لگایا جائے تو ”جاننے“ کے بجائے یہ ”ماننا“پڑے گا کہ مسلمانوں نے ہندستان کو توڑا تھا اور ہندووں نے پاکستان کو توڑ دیا۔ اسی لئے حقیقی تعلیم میں ”اندھیرے“میں ”اندازہ“ لگانے کے بجائے ”روشنی“میں حقائق کا ”پتہ چلانے“ پر زور دیا جاتا ہے تاکہ لوگ مفروضات میں الجھنے کے بجائے سچائی کا سامنا کریں اور اندیشوں کا کاروبار کرنے والوں کے ہتھے چڑھنے کے بجائے امکانات کے رخ پر آگے بڑھیں۔
بر صغیر میں بدقسمتی سے اب تک ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ اِس کی قیمت ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش اپنے اپنے طریقے سے چکا رہے ہیں۔ آزادی کے فیصلہ کُن موڑ پر ہندستان کو جہاں دونوں فرقوں کے مٹھی بھر سازشیوں کی مذموم کامیابی کے نتیجے میں غیر متحد ہوجانا پڑا تھا، وہیں محدود مفادات پر قائم پاکستان خود اپنے اعمال سے دولخت ہوگیا۔ دوقومی نظریہ کا مدفن بن کر ابھرنے والا بنگلہ دیش بھی تاریخ کے ایک ایسے باب میں تبدیل نہیں ہوسکا جسے دہرانے کے بجائے پڑھا جاتا اور سبق حاصل کیا جاتا۔ کم و بیش اب تک کا منظر نامہ تو یہی ہے۔ آگے کیا ہوگا اس کا انحصار نئی نسل کی اُس بیداری پر ہے جس کی راہ ہموار کرنا موجودہ نسل کی ذمہ داری ہے۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بر صغیر میں ”علم“ کو اب تک”جہل“ سے نجات کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکا ہے۔ اگر ایک سے زیادہ جامعات، وشو ودیالے اور یونیورسٹیاں سابقہ زائد از نصف صدی کے دوران اِس محاذ پر کامیاب ہو گئی ہوتیں تو آج یورپ کے ساتھ جنوبی ایشیا بھی اِس رُخ پر دنیا میں توازن قائم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہوتا۔اِس انقلاب کے برپا نہ ہونے کا انجام یہ سامنے آیا کہ فرقہ جاتی نظریات اور مذہبی عقائد کو ایک سے زیادہ تہذیب سوز حلقوں نے کھانے کمانے کا ذریعہ بنا لیا۔
خطے کی حالت اب یہ ہو گئی ہے کہ ہر طرف سیاسی، سماجی اور مذہبی مداریوں کا جال بچھ گیا ہے۔ یہ کرتب باز ضروری دنیاوی آسائشوں سے محروم لوگوں کو نظریاتی تسکین کا سامان فراہم کر کے اُن سے سوچنے اور سمجھے کی صلاحیت چھین لیتے ہیں۔ معاشرے میں شہادتوں اور شبہات پر استدعائیت کو ترجیح دینے کا چلن عام ہے۔ اِس سچ کو جاننے والے عافیت پسند لوگوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ وہ کھل کر چیلنج کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے۔ اس لئے افسوس کے ساتھ ہی سہی یہ مان لینا چاہئے کہ مقصد ِکُن کی طرف علمی طور پر آگے بڑھنے میں ابھی دہائیوں کا نہیں، صدیوں کا سفر باقی ہے۔ اور یہ سفر نہ آزمودہ سیکولرسٹوں کی قیادت میں طے کیا جا سکتا ہے نہ موجودہ قیادت سے ایسے کسی معجزے کی توقع کی جا سکتی ہے جس میں ”ہم تو نہ بدلیں لیکن زمانہ بدل جائے“۔
میڈیا اور درسگاہوں پر ابھی کل تک جہاں یساری سوچ میں مست لوگوں نے قبضہ کر رکھا تھا وہیں آج یہ دونوں ہی ادارے یمینی نظریات پر یقین رکھنے والوں کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔ ایک دشواری یہ بھی درپیش ہے کہ کچھ نام نہاد سیکولرسٹوں اور لبرلزم کے فرضی پرچم برداروں نے اعتدال پسندی کی راہ کو بھی آلودہ کر کے رکھ دیا ہے۔ شعبدہ باز عناصر اس راہ پر ایمانداری سے چلنے کے بجائے جعلی منزل رُخی نقشے بیچنے لگے ہیں۔ دائیں اور بائیں بازوؤں کے ستائے ہوئے سادہ لوح لوگ آسانی سے ان کے ہتھے چڑھ جا تے ہیں۔ یہ انتہائی پیچیدہ صورتحال ہے جو دنیا کے ایک سے زیادہ خطوں کو در پیش ہے۔ اِن حالات میں رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کے نام پر تصادم سے نجات کیلئے حقیقی علم سے استفادہ ناگزیر ہو گیا ہے تاکہ اِن دونوں اداراں کی قیادت عملاً روشن خیال لوگوں کے ہاتھوں میں آسکے۔
منظر نامہ کیسے بدلے گا! اس پر مسلسل اور ایک سے زیادہ زاویوں سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس ضرورت کی ایماندارانہ تکمیل سے ہی نسل آئندہ کیلئے کوئی بے نقص نہیں تو بہت حد تک محفوظ راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ضرورت کے عملی ادراک کی صوت کیسے نکالی جائے! بہ الفاظ دیگر اس کام پر اُن فرارپسندوں کو کیسے آمادہ کیا جائے جو کسی بدنیتی سے نہیں بلکہ حالات سے اوب کر فرار کی راہ اختیار کرنے لگے ہیں۔ وہ محدود پیمانے پر نجات کی صورت تونکال لیتے ہیں لیکن اِس سے وہ تبدیلی نہیں آسکتی جو اللہ کو مقصود ہے۔ جہاں تک خدائے بزرگ و برتر کا تعلق ہے تو وہ از خود زمیں پر اُتر کر نہ آلِ آدم و ابراہیم کی رہنمائی کرے گا، نہ ہی وہ اپنے ایک سے زیادہ ناموں (بشمول صفاتی شکلوں) کے ہائی جیکروں سے عام انسانوں کو نجات دلانے کیلئے کوئی معجزہ دکھائے گا۔ یہ کام صرف اور صرف باضمیر انسانوں کو کرنا ہے، خواہ وہ بائی ڈیفالٹ کوئی بھی شناخت رکھتے ہوں۔
ایک بات ہمیشہ ذہن نشیں رکھی جائے کہ سماج میں کسی بھی بُرائی پر جارحانہ طریقے سے اعتراض کر کے اُس بُرائی کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم میں سے بیشتر لوگ کسی بُرائی سے زیادہ اُس پر بے تکے یا جارحانہ انداز میں اعتراض کر کے کیس بگاڑتے آئے ہیں۔ آج بھی اسی رُخ پر عمل اور ردعمل دونوں کے اشتراک سے خسارے کا دائرہ بڑھایا جا رہا ہے۔ بیدار ضمیر لوگوں سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔ اس لئے ہونا یہ چاہئے کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کی جائے۔ مظلوم کے لئے ڈھال بننے کے ساتھ ”تخریب“ پر آمادہ ظالم کے ہاتھ کا رُخ کسی”تعمیر“ کی طرف موڑا جائے۔ یہ کام ناممکن ہرگز نہیں، البتہ سہل پسندوں اور عافیت کوشوں کیلئے مشکل ضرور ہے۔
اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اُس میں جمہوری ہندستان کی مذہبی اکثریت کو عظمت رفتہ کی بحالی کے حوالے سے وہی خواب دِکھایا جا رہا ہے جو ماضی میں بر صغیر کے مسلمانوں کو دِکھانے اور اُسے بھُنانے کا دہائیوں بلکہ ایک صدی پر محیط کاروبار کیا گیا۔ اِس وقت قومی موڈ کا جس طرف بہاؤ ہے اُسے نہ کوئی تحریکی قلم موڑ سکتا ہے، نہ مخالف سمت میں پیرنے کی کوئی جذباتی کوشش اس موڈ کو حسب خواہ بدلنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ یہ وقت انتہائی فہم و تدبر سے کام لینے کا ہے اور یہ سمجھنے کا ہے کہ جس طرح ایک فرقہ مجموعی طور پر اعتدال پسند ہوتے ہوئے بھی اپنے حلقوں کے”ردعمل پسندوں“ پر قابو پانے سے قاصر ہیں، اسی طرح دوسری طرف کے اعتدال پسند بھی (جو فرضی سیکولرزم سے اوب گئے تھے) اپنے غلط کاروں کی پُر تشدد کارروائیوں کو ایکدم سے روکنے کے لئے سامنے نہیں آپا رہے ہیں۔
عصری منظر نامے کا یہ معاشرتی بیانیہ کسی بھی طرح نسل آئندہ کے حق میں امید افزا نہیں۔ اس صورتحال کو بدلنے میں اکثریت اور اقلیت کے باشعور حلقے جتنی تاخیر سے کام لیں گے نقصانات کا دائرہ دونوں طرف کم و بیش اتنا ہی وسیع ہوگا۔ خوف اور نفرت کے سائے میں جینے والوں کو جس آزمائش کا سامنا ہے اُس سے نکلنے کی”ردعمل والی“ کوشش معاملات کو اور الجھا سکتی ہے۔ کسی کی ذرا سی بھی لغزش کی انتہاپسندانہ گرفت یا کسی کے بیان کی کسی خامی کو پورے بیان کے سیاق و سباق سے باہر قوسین میں رکھنے کے جذباتی رویے نے ملک کے دنوں فرقوں کوابتک صرف نقصان ہی پہنچایا ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ عہد بہ عہد دنیاوی ترقی میں ہم اپنے ایک بڑے ہمسائے سے اب تک پچھڑے ہوئے ہیں۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ نفاق و اختلاف کے ماحول میں الزامات کا دفتر سجا کر فریق ثانی سے صرف معقولیت کا مطالبہ کشیدگی کو اور بڑھا دیتا ہے۔ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے دونوں جانب سے یہی ہو رہا ہے۔ اس تفہیم کے ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اگر فریقین میں آبادی کا تناسب بہت زیادہ فرق رکھتا ہے تو کمزور فریق کوہی فطری طور پرزیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔یہی وہ موڑ ہے جہاں سے گزرنے والے حکمراں حلقے،خواہ وہ کتنے ہی جمہوریت پسند ہونے کے دعویدارکیوں نہ ہوں، موقع کو کیش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اہلِ اقتدار ہر عہد میں ایسی انسانی کمزوریوں سے اپنے مقاصد حاصل کرتے آئے ہیں۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ حکمرانوں کے عزائم کی ترجمانی کے برعکس عوام کی خوش حالی اور ترقی کا رازصرف امن اور دوستی میں ہے۔اِن دونوں جذبوں کو جب کسی معاشرے میں علمی بنیاد پر فروغ دیا جاتا ہے تو اُس معاشرے کی سماجی، سیاسی اور مذہبی نمائندگی کی صحت پر بھی اس کا مثبت اثر پڑتا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)