تحریر: عبدالحمید نعمانی
زندگی کی بنیاد، مثبت فکروعمل سے عبارت ہے۔ جب کہ علم کلام میں موت، زوال حیات کا نام ہے، تاہم بسا اوقات اصلا بے وجود کے انکار کا اعلان بھی ضروری ہوتا ہے۔ باطل کا مطلب ہے، بے وجود، مٹا ہوا، اس کے باوجود تاریخ کی نظروں نے یہ دیکھا ہے کہ وجود کی بقاء و ذاتی و گروہی مفادات کے حصول و تحفظ کے لیے ، باہمی جنگ جدال اور نفرت کا خصوصا اقتداری اور اکثریتی طبقے سہارا لیتے رہتے ہیں، آج کی تاریخ میں فرقہ وارانہ اور مذہبی خطوط پر سماج کو تقسیم کرکے اپنے تفوق اور سیاسی مقاصد کے لیے تقسیم و تفریق کو بڑھاوا دیا جارہا ہے، ورنہ جمہوری اور سیکولر نظام حکومت میں جو ملک کے آئین، کے تحت قائم بھید بھاؤ پر مبنی کسی قول و فعل اور فکروعمل کے لیے سرے سے کوئی گنجائش نہیں ہے، سناتنی اور پرانک روایت اور رامائن کے پیش کردہ آدرش میں مذہبی تفریق اور حکمراں گروہ سے تعلق رکھنے کے تناظر میں عبادت گاہوں کے سلسلے میں طرف داری اور امتیاز ممنوع ہے۔ 10 اوتاروں میں شامل پر شو رام نے شیوکمان ،راون کے بجائے راجا جنک کو دینے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ راون مذہبی کمیونیٹیز کے درمیان بھید بھاؤ کرتے ہوئے ان کے وجود کو برداشت کرنے کا روادار نہیں تھا، جب کہ راجا جنک کے راج میں یہ بھید بھاؤ نہیں تھا۔
یہ اور بات ہے کہ شیو اور وشنوئی فرقے کے درمیان میں باہمی تصادم و تفریق کے خاصے حوالے ملتے ہیں، پرشو رام اور رام وشنو کے اوتار مانے جاتے ہیں اور راون شیو بھگت لیکن پرشو رام، رام، شیو کے ساتھ نظر آتے ہیں، جب کہ راون اس کی پوری برادری اور خاندان کے لیے، وشنو ایک بڑے دشمن اور مد مقابل کے روپ میں دکھائی دیتا ہے، یہاں تاریخ اور تصوراتی کہانی اور اساطیر کے متعلق کچھ سوالات سامنے آسکتے ہیں، تاہم زمانے اور سماج کے رویے کے اظہار کے سلسلے میں زیادہ سوال کا کوئی زیادہ معنی ومطلب نہیں ہے۔ بسا اوقات روایت اور چلن، تاریخ سے پہلے اور آگے ہوتی ہے، روایت اور چلن کی تاریخ لکھی جا سکتی ہے لیکن تاریخ کو کہانی اور اساطیر میں تبدیل کرنا، ایک تباہ کن اور عمل معکوس ہے۔ ماضی کی سرگزشت، تاریخ ہے۔ اس میں حال کے لوگ تبدیلی کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں، تاریخ ہمیشہ حال کی دسترس سے باہر ہوتی ہے یہ اور بات ہے ماضی کے عمل کا تاریخ کا حال اور مستقبل کے بنانے، بگاڑنے میں خاصا رول ہوتا ہے، تاہم لگتا ہے کہ ہندوتوادیوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیا ہے اور نہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں، نو شتہ دیوار کو پڑھنے کے بجائے اس کی کھونٹیوں پر اپنے فکروعمل کو لٹکانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، نہ تو سنگھ سربراہ موہن بھاگوت اپنی جگہ کھڑے رہتے ہیں اور نہ بی جے پی کے لیڈر تنگ نظری اور زہریلی فرقہ پرستی سے خود کو الگ کررہے ہیں، ہندو مسلم اور فرقہ وارانہ تنازعات میں ہی اپنی زندگی کی بقا دیکھتے ہیں، اس صورت حال کی تبدیلی کے لیے جہاں تدارکی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ وہیں ضروری سوالات بھی سامنے لانا وقت کا تقاضا بھی ہے، کسی ضروری سوال سے گریز یا اس کا جواب ادھار رکھنا ملک و قوم کے حق میں مفید نہیں ہے۔
تین زرعی قوانین کی واپسی سے جہاں بہت سے سوالات پیدا ہوئے ہیں، وہیں کئی سارے پردے کے پیچھے کے جوابات بھی راشٹر کے سامنے آگئے ہیں۔ تمام تر شواہد و مباحث مسجد کے حق میں جانے اور ہندوتوادیوں کے ،مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کے اصل دعوے کی تردید و تغلیط کے باوجود خصوصی اختیار کے تحت ناقابل فہم فیصلے نے صداقت و اخلاقیات کے اس تقدس کو باقی نہیں رکھا ہے جو کسی بھی عبادت گاہ اور لوگوں کے جذبہ بندگی کے لیے مطلوب ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ ہم مسجد کے خلاف مندر کے حق میں بے بنیاد اور جھوٹے دعوے کی تثبیت و تشہیر مطلوبہ سطح پر نہیں کرسکے۔یہی تحریری دستاویز تو آنے والی نسلوں ک لیے تاریخ و تصویر کا کام کرے گی ۔
رام مندر کے بے بنیاد دعوے کو سامنے لاتے ہوئے سماج کو بتانا ضروری ہے کہ کاشی، متھرا وغیرہ کے مندروں کے متعلق دعوے بھی اکثریت پرستی اور زبردستی کی ذہنیت کا اظہار ہے، نہ کہ انصاف کی بحالی اور قانون کی بالادستی کی کوشش، 1991 میں نرسمہا راؤ کی سرکار میں عبادت گاہ تحفظ قانون بن جانے کے بعد بابری مسجد / رام جنم بھونے مندر مستثنیٰ معاملے کے سوا دیگر عبادت گاہوں کے سلسلے میں تنازعہ یا عدالت میں معاملے کو لے جانا ایک غیر قانونی ہے گزشتہ دنوں عدالت نے متھرا کی شاہی مسجد کو ہٹانے کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قابل سماعت نہیں ہے۔ 1991 کے قانون کے مطابق تمام عبادت گاہیں، 15 اگست 1947 کی پوزیشن میں رہیں گی۔ اس کی شق 4(2) میں ہے کہ 15 اگست 1947 کی حالت کو باقی رکھنے کے پیش نظر اگر کوئی متعلقہ معاملہ متنازعہ ہے، یا اپیل ہے تو سب کالعدم ہے، کاشی متھرا دونوں جگہ باہمی سمجھوتے کے ساتھ، مندر، مسجد دونوں اپنی اپنی جگہ موجود ہیں، اس کے پیش نظر اجودھیا کے رام مندر ، جس کے متعلق بھی دعوی جھوٹا اور بے بنیاد ثابت ہوچکا ہے کی طرح کاشی متھرا کے معاملے کو اچھالنے کا مطلب شرارت کی سیاست کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ مندر ، مسجد کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سنگھ سربراہ بھاگوت نے کہا تھا کہ کاشی، متھرا ہمارے ایجنڈے میں نہیں ہے۔
تحریک ہماری جدو جہد کا بنیادی حصہ نہیں ہے۔ بلکہ ہمارانصب العین افراد سازی اور سماج کی تعمیر ہے۔ اس کے بعد بھی یوپی کے نائب وزیر اعلی اور دیگر کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنا کارنامہ دے کر کاشی، متھرا کے مندر، مسجد کو فرقہ وارانہ رنگ میں سامنے لانا انتہائی خراب سیاسی کھیل ہے اس کے سلسلے میں یوگی کا بیان بڑامعنی خیز ہے کہ اجودھیا میں رام کی پوجا ہورہی ہے اور کاشی میں وشوناتھ اور متھرا میں کرشن کی پوجا ہورہی ہے اس کا مطلب موریہ کے بیان کے برعکس نکل رہا ہے۔
ایک طرف یہ کہنا کہ ہمارے لیے عبادت گاہوں میں امتیاز اور طریق بندگی کے اختلافات کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں تو دوسری طرف، مندر، مسجد اور نماز، اذان کے نام پر نفرت انگیز سیاست اور جارحانہ سرگرمیاں، برہمن واد پر مبنی ہندوتوادی فکروعمل اور دعوے کے کھلے تضادات کو سامنے لاتی ہیں ،یہ ہندوتو کی ناکامیوں اور معقولیت و معنویت کے لحاظ سے ناقابل قبول بنانے کے بہت سے اسباب میں سے ہے، ڈاکٹر بھاگوت کے محض یہ دعوی کردینے سے کہ بھارت ہندو ہے اور ہندو ہی بھارت ہے۔ تضادات اور ہندو تو سے متعلق بنیادی سوالات ختم نہیں ہو جائیں گے۔ وہ بھارت کو ہندو کے ہم معنی قرار دے کر اپنے اس دعوے کی تردید و تکذیب کر جاتے ہیں کہ بھارت کا نظریہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے،1 دسمبر 2021 کو گوالیار، میں ڈاکٹر بھاگوت کے خطاب سے بھارت کی تنوعات، تنازعات میں بدل جاتی ہیں، یہ ایک طرح سے بھارت کی کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کی جاری روایت اور اس کی بنیاد پر تشکیل شدہ ہندوستانی تکثیری سماج کو ختم کرکے برہمن وادی تفوق و بالا تری پر مبنی جارحانہ و منفی ہندو تو کے نظریے پرقائم ایک کلیت پسندانہ سماج بنانے کی مذموم سعی ہے۔
ہندوتو کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ اس کے حامل عناصر، اپنے نظریے و روایات کے مطابق آج تک کوئی مربوط و مکمل نظام حیات اورقانون عمل سماج کو نہیں دے سکے ہیں، وہ سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ و تحفظ کے تحت، ہندوتو اور راشٹرواد کے جارحانہ منفی اور مفروضے نعرے سے اقتدار میں تو آگئے ہیں، لیکن کوئی بہتر متبادل طرز حکومت اور نظام حیات فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہیں، اس کی تلافی تنازعات و تنافرسے نہیں ہو سکتی ہے۔ تنوعات کے بجائے تنازعات میں زندگی کی تلاش، ناکام کوشش کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ انصاف کی فراہمی کے بجائے مسائل کے نام پر متنازعہ مسائل کے حل کی بات قطعی بے فائدہ وبے نتیجہ عمل ہے اسے زیادہ دنوں تک نہیں کیا جاسکتا ہے۔جب تک ہندوتوادی ذہنیت کا انہدام نہیں ہوجاتا ہے، تب تک تنازع اور نفرت انگیزی میں زندگی کی تلاش کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)