لکھنؤ :
اترپردیش پولیس نے نیوز ویب سائٹ ’ دی وائر‘ اور چار دیگر لوگوں کے خلاف بارہ بنکی میں مسجد منہدم کئے جانے کے معاملے میں ایف آئی آر درج کی ہے۔ ’ دی وائر اور باقی لوگوں پر مبینہ طور سے غلط جانکاری اور 23 جون کو اپ لوڈ ہوئی ایک ویڈیو کے ذریعہ مذہبی نفرت پیدا کرنے کے الزام میں کیس درج ہوا ہے ۔
دی کوئنٹ ہند ی کی رپورٹ کے مطابق جن چار لوگوں کا نام ہے ، ان میں سے دو ’دی وائر‘ کے صحافی سراج علی اور مکل سنگھ چوہان ہیں۔ باقی دو مسجد کمیٹی کے سکریٹری محمد انیس اور مقامی رہائشی محمد نعیم ہے۔
بارہ بنکی کے ضلع مجسٹریٹ آدرش سنگھ کا دعویٰ ہے کہ23 جون کو ویب سائٹ نے جو دستاویزی فلم نشر کی ہے ، وہ جھوٹی اور بے بنیاد معلومات فراہم کرتی ہے اور اس کا مقصد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کا ہے ۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق آدرش سنگھ نے 24 جون کو ایک بیان میں کہا ’’ ویڈیو میں کئی غلط اور اور بے بنیاد بیان ہے ، جس میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ اور پولیس نے مذہبی صحیفے کو ندی اور نالے میں پھینک دیا، یہ جھوٹ ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس طرح کی گمراہ کن جانکاری سے دی وائر سماج میں دشمنی پیدا کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ ‘‘
کیس آئی پی سی کے سیکشن 153 (فساد کرنے کے مقصد سے اکسانا) 153-A (مختلف فرقوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینا) ، 505(1)(B) (عوام میں ڈر پیدا کرنے کا مقصد یا ایسا ہونے کا خدشہ ) ، 120B( مجرمانہ سازش ) اور 34 (ایک مقصد کے لیے کئی لوگوں کے مجرمانہ فعل کا ارتکاب کرنا)۔
ایس پی بارہ بنکی نے کہاکہ مقامی شخص نعیم کا نام اس لئے شامل کیا گیا کیونکہ اس نے ہی ’ مذہبی کتابوں کو ندی اور نالوں میں پھینکنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس پورے معاملے پر دی وائر کے فاؤنڈر ایڈیٹر سدھارتھ وردراج نے کہاکہ تمام کیس بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ گزشتہ 14 مہینوں میں یوپی پولیس کی ہمارے یا ہمارے صحافیوں کے خلاف چوتھی ایف آئی آر ہے اور تمام کیس بے بنیاد ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار میڈیا کی آزادی میں یقین نہیں رکھتی اور صحافیوں کے کام کو جرم کے زمرے میں رکھتی ہے ۔
واضح رہے کہ جب مسجد منہدم کی گئی تھی تو سنی وقف بورڈ کے چیئرمین زفر فاروقی نے اس کی مذمت کی تھی۔
ویڈیو اسٹوری میں مسجد کمیٹی کے کچھ ارکان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس دستاویزات موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ گرایا گیا ڈھانچہ جائز تھا ۔
اس کے بعد سنی وقف بورڈ نے الہ آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، اس پر سماعت چل رہی ہے اور اگلی تاریخ 23 جولائی ہے۔