نئی دہلی:(ڈ ی ڈبلیو)
بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے دوسالہ انتخابات کے لیے جمعہ 10جون کو ووٹ ڈالے گئے۔57 نشستوں کے لیے اس ضمنی انتخاب میں 47 اراکین پہلے ہی بلامقابلہ منتخب ہو چکے ہیں جب کہ آج 16 سیٹوں کے لیے ووٹنگ ہوئی۔ اس وقت بی جے پی کے تین مسلم اراکین راجیہ سبھا کے رکن ہیں۔ ان میں سے ایک مختار عباس نقوی مرکز ی وزیر ہیں۔ لیکن چند دنوں میں تینوں کی مدت ختم ہو رہی ہے اور پارٹی نے انہیں دوبارہ امیدوار نہیں بنایا۔ لہٰذا پارلیمان اور حکومت دونوں میں ہی حکمران جماعت میں مسلمانوں کا کوئی بھی نمائندہ نہیں رہے گا۔
یہ توقع کی جا رہی تھی کہ رام پور یا اعظم گڑھ کے پارلیمانی حلقے سے لوک سبھا کے ضمنی انتخابات میں نقوی کو امیدوار بنایا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہندوتوا کی اس کی سیاست میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں اور سیکولرزم اور جمہوریت کے نام پر بھارت میں 20کروڑ سے زائد آبادی والی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو نمائندگی دینے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
ابھی امید باقی ہے!
اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی صدر اپنے خصوصی اختیارات کے تحت راجیہ سبھا کی فی الحال سات خالی نشستوں میں سے کسی پر کسی مسلم امیدوار کو نامزد کرتے ہیں یا نہیں۔ تاہم سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی جس طرح ہندوتوا کی سیاست کو فروغ دینے اور اسے مستحکم کرنے کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے، اس کی وجہ سے شاید یہ امید بھی پوری نہ ہو سکے۔
ان مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ اس وقت قابل ذکر مسلم آبادی والی 15ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے لیکن ان میں ایک بھی مسلمان کابینہ کا وزیر نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی سب سے زیادہ )20 فیصد)آبادی والی ریاست اتر پردیش میں خانہ پری کے لیے صرف ایک مسلمان کو نائب وزیر کا عہدے پر نامزد کیا گیا ہے۔
آزادی کے بعد سے ہی بھارتی مسلمانوں کی حالت ابتر
سن 1947میں تقسیم کے بعد سے ہی بھارت میں سیاسی، سماجی، اقتصادی اور دیگر شعبوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کم سے کم تر ہوتی گئی۔ مسلمانوں کی خراب سماجی اور اقتصادی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے سن 2005میں سچر کمیٹی قائم کی تھی۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا، ’’گزشتہ 60 برسوں کے دوران سرکاری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی مسلسل گھٹتی چلی گئی۔ تقریباً تمام سیاسی شعبوں میں مسلمانوں کی شراکت برائے نام رہ گئی اور طویل مدت میں بھارتی سماج اور سیاست پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پارلیمان میں مسلمانوں کی نمائندگی میں مزید کمی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی دیرینہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی اقلیت کو سیاسی نظام سے الگ تھلگ کرنا یہ بتاتا ہے کہ بھارت بھی یہودی یا اسلامی ریاست کی طرح ایک ہندو ریاست بننے والا ہے۔ سیکولرزم، تنوع اور شمولیت جیسے رہنما اصول سیاست سے غائب ہوتے جا رہے ہیں اور بی جے پی ملک کو اپنی گرفت میں پوری طرح لینے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
’مسلمان بھی ملک کا اٹوٹ حصہ‘
ترنمول کانگریس کی رہنما اور لوک سبھا کی رکن مہوا موئترا کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں فیصلہ سازی کے عمل میں تنوع پر زور دیا جاتا ہے تاکہ زیادہ بہتر فیصلے اور نتائج سامنے آ سکیں۔ لہٰذا 20 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کی نمائندگی کو نظر انداز کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں۔ موئترا کا مزید کہنا تھا کہ یوں بھی وزیر اعظم مودی ’’سب کا ساتھ، سب کی ترقی اور سب کا اعتماد‘‘ پر زور دیتے ہیں۔
موئترا کہتی ہیں کہ بی جے پی کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ لوک سبھا میں 301 یعنی 51 فیصد اور راجیہ سبھا میں 95 یعنی 38 فیصد ممبران پارلیمان نیز ملک کی مختلف ریاستوں میں مجموعی طور پر 1379 یعنی 33 فیصد اراکین اسمبلی ہونے کے باوجود ان میں ایک بھی مسلمان کیوں نہیں ہے؟
رکن پارلیمان مہوا موئترا کا کہنا ہے کہ یہ دلیل غلط ہے کہ چونکہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے یا مسلمان بی جے پی کو پسند نہیں کرتے، اس لیے پارٹی انہیں اپنا امیدوار نہیں بناتی۔ انہوں نے کہا، ’’ایک سیاسی پارٹی اور نجی ڈنر پارٹی میں فرق ہوتا ہے۔ ڈنر پارٹی کے برخلاف سیاسی پارٹی میں آپ صرف ان کو مدعو نہیں کر سکتے جنہیں آپ پسند کرتے ہیں۔ مسلمان بھی اس ملک کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ ان کا خون اور پسینہ بھی اس ملک کی ترقی میں شامل ہے۔ لہٰذا بی جے پی کو اپنے رویے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔‘‘
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو)