نئی دہلی :
رائٹرز کے صحافی دانش صدیقی نے 22 اپریل کو دہلی کے ایک شمشان سے جلتی چتاؤں کی تصویر ٹویٹر پر شیئر کی۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ ’’ اب جب بھارت میں کورونا کے معاملے دنیا میں سب سے زیادہ آرہےہیں ، نئی دہلی کے شمشان سے ان لوگوں کی چتاؤں کی تصویر جو کورونا سے مر گئے۔‘‘
اس ٹویٹ میں انہوں نے وہ تصویر بھی شیئر کی تھی، جس میں ایک ڈرون شوٹ میں 50 سے زائد چتائیں تھیں۔
یہ ٹویٹ جلد ہی وائرل ہوگیا اور دائیں بازو کے سوشل میڈیا صارفین نے اسے غیر ملکی صحافیوں اور میڈیا کی ہندوستان کی شبیہ خراب کرنے کی سازش بتایا۔ انہوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے یہ بھی الزام لگایا کہ وہ ’گدھ‘ ہیں اور وہ مغربی ممالک میں کورونا سے مرنے والے لوگوں کی تصاویر شائع نہیں کرتے ہیں لیکن وہ ہندوستان کی شبیہ کو داغدار کرنے کے لئے ایسا کررہے ہیں۔
کیا غیر ملکی اخبارات نے مغربی ممالک میں کورونا سے ہلاکت کو کووریج نہیں کیا؟
گزشتہ سال جب کورونا کی پہلی لہر نے امریکہ شمالی امریکہ اور یورپ کے ممالک میں قہر مچایا تھا تب ہم نے کئی ایسی تصاویر دیکھیں جسے دیکھ کر ہم سب ڈر گئے تھے۔ غیرملکی اخبارات نے تب بھی ہزاروں کی تعداد میں مرتے لوگوں کی خبر اور تصویر شائع کی تھیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مقامی سرکاروں کو ان کی لاپروائی کے لیے ذمہ دار بھی ٹھہرایا تھا۔
نیویارک ٹائمس نے ایک اداریہ لکھتے ہوئے سابق صدر ٹرمپ کی حکومت سے کورونا بحران سے متعلق بدانتظامی پر سخت تبصرہ کیا تھا۔ ’’انہوں نے لکھا ہے کہ’ٹرمپ نے تقریباً سب کچھ غلط کیا۔ انہوں نے ماسک پہننے کی حوصلہ شکنی کی اور تمام ذمہ داریوں اور ریاستی انتظامیہ پر ذمہ داری عائد کردی ،جو اس کے لیے تیار نہیں تھے‘‘