تحریر:ڈاکٹر سلیم خان
وطن عزیز میں صحافتی آزادی کا گلا کس طرح گھونٹا جارہا ہے اس کو تریپورہ میں ۲؍نوجوان صحافی خواتین کی تریپورہ پولیس کے ذریعہ ڈرامائی انداز میں گرفتار ی سے لگایا جاسکتا ہے۔ مسلم مخالف تشدد کی زمینی حقیقت کا پتہ لگانے پر تعینات جرمنی کی خبررساں ایجنسی ڈی ڈبلیو کے لیے کام کرنے والی سمردھی سوکنیا اور سو َرنا جھا پر پولیس نے ’’فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے‘‘ کا الزام عائد کرکے ان کے خلاف ۲؍ ایف آئی آردرج کرلی ۔ ایک ایف آئی آر میں پولیس نے انہیں ۲۱؍ نومبر کو اپنے وکیل کے ساتھ بیان درج کرانے کیلئے آنے کی اجازت دیدی۔ اس کے باوجود آسام کی سرحد میں داخل ہوتے ہی انہیں روک کر تریپورہ پولیس کے حوالے کردیاگیا۔ اس پر ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ امریکی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ‘ ، دہلی یونین آف جرنلسٹس، انڈین ویمن پریس کورپس، ڈی آئی جی آئی پی یو بی نیوز انڈیا فاؤنڈیشن اور متعدد معروف صحافیوں نے بھی مذمت کی ۔ اس دباو کے نتیجے میں اگلے دن انہیں گومتی ضلع کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ نے ضمانت پر رہا کردیا۔ یہ صحافیہ اگر مسلمان ہوتیں اور معاملہ اترپردیش کا ہوتا تو بعید نہیں کہ ان پر صدیق کپنّ کی طرح یواے پی اے لگا دیا جاتا۔
نیویارک کی غیر سرکاری تنظیم پولس پروجیکٹ نے ہندوستان کے اندر صحافیوں پر ہونے والے حملوں پرجو تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے اس میں مئی 2019 ء سے لے کر امسال اگست تک صحافیوں پر سرکاری ظلم و ستم کی تفصیل درج ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ صحافیوں کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرنے سے لے کر قتل تک کے معاملات میں تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جائزے کے مطابق جموں و کشمیر میں 51، متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران 26، دہلی میں فروری 2020 ء میں ہونے والے فسادات کے دوران 19 اور کووڈ کے کیسز کی کوریج کے دوران صحافیوں پر تشدد کے 46 واقعات رونما ہوئے ۔ متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسان تحریک کے دوران صحافیوں کے خلاف تشدد کے اب تک 10واقعات پیش آچکے ہیں جبکہ 104واقعات ملک بھر میں دیگر موضوعات کی کوریج کرتے ہوئے پیش آئے۔اس طرح دوسالوں میں صحافیوں پر جملہ 256 حملے ہوئے۔ اس ابتلاء و آزمائش نے صحافت جیسے مقدس فریضے کو ایک خطرناک پیشے میں بدل کر رکھ دیا ہے۔
اس عرصہ میں حکومت کی بدنامی کا سب سے بڑا سبب کیرلہ کے معروف صحافی صدیق کپّن کی گرفتاری بنا ۔ ان کو پچھلے سال اکتوبر میں اترپردیش کے ہاتھرس کے اندر ہونے والی اجتماعی عصمت دری کے بعد قتل ہونے والی خاتون کی رپورٹنگ کے لیے جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ صدیق کپّن پر ریاستی حکومت نے مختلف فرقوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے، سازش اور ملک سے غداری جیسے سنگین الزمات لگائے نیز ان کی 90 سالہ والدہ کے انتقال پر بھی پیرول نہیں دیا گیا۔ کسان تحریک کی رپورٹنگ کرنے والے مندیپ پونیا کو رواں برس 30 جنوری کو سندھو بارڈر سے گرفتار کر کے ان پر سرکاری کام میں رخنہ ڈالنے، سرکاری اہلکاروں پر حملہ کرنے،سرکاری اہلکار کو چوٹ پہنچانے جیسے تعزیرات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ۔ صحافتی برادری اور سول سوسائٹی کی مخالفت کے باوجود انہیں ضمانت نہیں ملی۔
لکھیم پور کھیری کے اندر کسانوں کےمظاہرہ میں جو8 لوگ مارے گئے ان میں ایک 35سالہ صحافی رمن کشیپ بھی تھا۔ ان کے اہل خانہ نے اس قتل کے خلاف شکایت میں الزام لگایا کہ رمن کو ‘وی آئی پی’ قافلے کی گاڑیوں سے کسانوں کو کچلے جانے کا ویڈیو شوٹ کرنے کے سبب گولیوں سے بھون دیا گیا ۔رمن کے والد رام دلارے کشیپ نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ گاڑی کی کوریج ہونےپرصحافی پر فائرنگ کی گئی۔ اس کے فوٹیج میں گولیوں کی آواز بھی موجود ہے۔ اس قتل و غارتگری میں مقامی رکن پارلیمان اور وزیر مملکت برائے داخلہ اجئے مشرا’ٹینی‘ کا بیٹا آشیش مشرا ملوث ہے۔ یوپی کی پولیس نے کسانوں کی شکایت پر آشیش مشرا اوردوسرے15-20 لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ302(قتل)،120-بی(مجرمانہ سازش)،147(دنگا کرانا)،279(جلدبازی میں گاڑی چلانا) سمیت آٹھ دفعات میں کیس درج کیا ہے۔ اجئے مشرا نے رمن کشیپ کو بی جے پی کارکنوں میں شامل کرنے کی مذموم کوشش کی مگر ان کے اہل خانہ نے اس بیان کو سرے سے خارج کردیا۔ رام دلارے کے مطابق رمن کشیپ وہاں مظاہرہ میں شامل ہونے یا کسی کی حمایت کرنے نہیں گئے تھے۔ انہیں وہاں ایک نامہ نگار کے طور پر اپنی ذمہ داری ادا کرتے وقت مارا گیا ۔
آنجہانی رمن کے بھائی پون نے وزیرکے بیٹے آشیش کوصحافی کی موت کے لیے ذمہ دارٹھہراتے ہوئے بتایا کہ رمن کے جسم اور سر پر چوٹ کے کئی نشان تھے۔ پون کا یہ بھی الزام ہے کہ ان کے بھائی کی موت لاپرواہی کی وجہ سے ہوئی ہےکیونکہ انہیں ضروری علاج نہیں مل سکا۔ پولیس نے متاثرین کووقت پر طبی امداددےکرانسان کی حیثیت سے اپنافرض نہیں نبھایا۔ رمن کے والد رام دلارے نے بتایا کہ ان کا پوراخاندان زندگی بھربی جے پی کا ووٹررہاہے۔ ان کے مطابق وہ پارٹی کے فعال کارکن تو نہیں رہے مگر کسان ہونے کے باوجود بی جے پی کے خاموش حامی رہے ہیں ۔ کسان خاندان سے تعلق رکھنے والا رمن نہ صرف صحافی بلکہ ایک مقامی اسکول میں پڑھاتے بھی تھے۔ اس سانحہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ رمن کشیپ کے پسماندگان میں بیوی ارادھنا بیوہ ہوگئیں نیزتین سال کا بیٹا ابھینو اور 11 سال کی بیٹی یتیم ہو گئے ۔
پون کشیپ تو خیر ایک گمنام صحافی تھے مگر فی الحال توسرکاری غنڈوں کے عتاب سے ملک کے اہم ترین اعزاز پدم شری یافتہ معروف صحافی ونود دووا تک محفوظ نہیں ہیں ۔ ان پر امسال جون میں دہلی کے فسادات پرایک رپورٹ نشر کرنے کا الزام لگا کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے ملک سے غداری کا مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ ونود دووا پر فرضی خبریں پھیلانے، عوام میں افراتفری پیدا کرنے، اہانت آمیز مواد شائع کرنے اور حکومت کو بدنام کرنے والے بیانات دینے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ بی جے پی رہنما کو شکایت ہے کہ ونود دووا نے اپنے پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی پر ووٹ حاصل کرنے کے لیے ”ہلاکتوں اور دہشت گردانہ حملوں‘‘ کا استعمال کرنے کاالزام لگایا تھا ۔ اس معاملے معمر صحافی کو عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنا پڑا جہاں ان کےخلاف دائر مقدمہ منسوخ کر دیا ۔فاضل ججوں نے ایک انتہائی اہم فیصلے میں کہا کہ ہر صحافی کو غداری جیسے الزامات سے تحفظ حاصل ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق،”ملک سے غداری کے حوالے سے سن 1962کے کیدار ناتھ سنگھ کیس کے فیصلے میں تمام صحافیوں کو تحفظ دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود صدیق کپن جیسے لوگ قیدو بند کی صعوبت سہہ رہے ہیں ۔ صحافیوں کی ملک گیر تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سنجے کپور کے مطابق یہ فیصلہ کافی نہیں ہے کیونکہ حکومت قومی سلامتی کی آڑ میں غداری کے قانون کی من مانی تشریح اور غلط استعمال کرتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس قانون کو بھارتی تعزیرات سے حذف کردیا جائے۔ سنجے کپور کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پچھلے سات برسوں میں صحافیوں کے خلاف غداری اور انسداد دہشت گردی جیسے سخت قوانین کے تحت مقدمات کی تعداد میں تیزی آ گئی ہے۔حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون (یو اے پی اے)، قومی سلامتی قانون(این ایس اے) اور پبلک سکیورٹی ایکٹ(پی ایس اے) جیسے سخت قوانین کے تحت مقدمات درج کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں کسی قانونی چارہ جوئی کے بغیر مہینوں ضمانت سے محروم رکھا جاسکے ۔
وطن عزیز میں حق گوئی کی سزا صحافیوں کے علاوہ حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے جہد کاروں کو بھی ملتی ہے۔ اس کی تازہ مثال تریپورہ پولیس کے ذریعہ سپریم کورٹ کے چار وکلاء پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام)( یوپی اےپی) کےتحت مقدمہ درج کیا جاناہے ۔ اس بابت ان وکلاء کو نوٹس بھیج کر انہیں 10 نومبر کو تفتیش کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ پی یو سی ایل سے منسلک سپریم کورٹ کے وکیل احتشام ہاشمی، امت سریواستو، انصار اندوری، مکیش کمار کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے تریپورہ کا دورہ کرکے حق و انصاف پر منحصر ایک رپورٹ تیار کی اور اسے شائع کردیا۔ اس رپورٹ میں چونکہ سرکاری دعووں کی تردید ہوتی ہے اس لیے پولس ان پر برہم ہے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جبکہ چند دن قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے دنیا بھر میں صحافیوں کی آزادی کے حق میں کہا تھا ،” کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک آزاد نہیں رہ سکتا جب تک کہ اُس میں صحافیوں کو ارباب اختیار کے غلط اقدامات کی تفتیش کرنے اور سچ بولنے کی اجازت نہ ہو۔” لیکن اس بیان سے مودی جی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ فی الحال ان کا نام آر ایس ایف کے ذریعہ جاری کردہ 37 آزادیٔ صحافت کے ’دشمن‘ سربراہان مملکت میں کیا گیا ہے مگر ان کی سرکارکو اس کی کوئی پرواہ نہیں جو اقتدار کے نشے میں مست جھوم جھوم کر آزادیٔ صحافت کا گلا گھونٹ رہی ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)