تحریر: پیوش رائے
1980 کی دہائی میں رام جنم بھومی تحریک سے مرکزی دھارے کی سیاست میں داخل ہونے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے30 سال بعد بھی سیاست اور انتخابات کا راستہ مندر سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔ رام مندر کی تعمیر 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کے اعلانات میں سے ایک تھی۔
ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے اور بی جے پی اسے آنے والے یوپی اسمبلی انتخابات میں اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ پارٹی نے واضح اشارے دیے ہیں کہ مندر سے جڑی سیاست کافی حد تک ان کے انتخابی پروفائل کا تعین کرے گی۔
کیوں اہم ہے کاشی وشوناتھ دھام کوریڈور؟
بنارس میں مرکزی اور ریاستی حکومت کے کئی اہم منصوبے سامنے آئے ہیں اور ان پر کام ہو رہا ہے، لیکن 800 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے کاشی وشواناتھ دھام کوریڈور منصوبے کو اب ایک علامت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
روڈمیپ کو حتمی شکل دینے سے لے کر اراضی کے حصول اور تعمیر تک صرف 3 سال لگے۔ اس دوران مرکز اور ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں نے اس کا مسلسل جائزہ لیا تاکہ ریاست میں اسمبلی انتخابات سے قبل مندر کوریڈور بن کرتیار ہوجائے۔
انتخابات سے دو ماہ قبل اور اگلے ایک ماہ تک افتتاح کے لیے مختلف پروگرام طے کیے گئے ہیں، جس کے لیے پارٹی کے مقامی عہدیداران اور سرکاری عملہ جنگی بنیادوں پر پیشگی تیاری کر رہے تھے۔
یوپی کی سیاست کو جاننے والوں کا کہنا ہے کہ آنے والے انتخابات میں بنارس کی بدلی ہوئی تصویر کو بی جے پی ریاست میں ترقی کی مثال کے طور پر پیش کر سکتی ہے۔
اگر اتر پردیش میں انتخابات کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ذات پات کے فارمولیشن ہمیشہ حاوی رہی ہے اور عام آدمی کے مسائل کبھی انتخابی مسئلہ نہیں بنتے۔ بی جے پی کو ہمیشہ مندر کی سیاست اور پولرائزیشن سے فائدہ ہوا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی انتخابی فارومولیشن مندر کے گرد ہی گھومتی ہے۔
بی جے پی مندر کوریڈور کی لمبی لسٹ کےساتھ تیار
جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں، مرکز اور ریاست کی بی جے پی حکومت نے اترپردیش میں بنارس کی طرز پر مرزا پور، ایودھیا، چترکوٹ اور متھرا میں مندروں کی کوریڈوروںکی تعمیر کا اعلان کیا ہے۔ مخالفین پر حملہ کرتے ہوئے اتر پردیش حکومت نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے مذہبی مقامات کو نظر انداز کیا اور ان کی بحالی کو اس حکومت میں ترجیح دی گئی۔
ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے علاوہ ہر سال ’’دیپ اتسو‘‘ کا پروگرام منعقد کیا جاتا ہے جس میں اتر پردیش کی بی جے پی حکومت کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے۔ ملک اور بیرون ملک سے مہمان آتے ہیں جنہیں لاکھوں چراغوں کے درمیان ایودھیا کی بدلی ہوئی شکل دکھائی جاتی ہے۔ لیزر لائٹ اور لیمپ کی چکاچوند کے درمیان ترقی کی ایک نئی تصویر دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے جو اس کے فروغ میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔
بڑے مندروں کے شہروں کو دی گئی ترجیح سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بی جے پی کی ترقی کا محور مذہب اور مندر کی سیاست پر ہے جو آنے والے اسمبلی انتخابات میں دیکھی جا سکتی ہے۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ :یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)