تحریر: مولانا عبد الحمید نعمانی
گزشتہ کچھ عرصے سے ساورکر کو اوپر اٹھانے اور بچانے کے تناظر میں گاندھی کے نام کا بہ طور حوالہ اور پناہ گاہ کے استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن گاندھی اور ساورکر کو ساتھ ساتھ رکھنا مشکل ہے تاہم پوری طرح الگ الگ بھی نہیں رکھا جا سکتا ہے، نزدیک آ کر بھی فاصلے پر دونوں کھڑے نظر آتے ہیں، گیتا، رامائن ،مہابھارت کا دونوں نام لیتے ہیں مگر تعبیرات و تشریحات میں تضاد و تصادم نظر آتا ہے، جنگ، تشدد، امن و عدم تشدد، ظاہر ہے متضاد ہیں، ساورکر جنگ و تشدد کے لیے راستہ نکال رہے ہیں تو گاندھی، امن و عد م تشدد کے لیے، ایک رامائن ،مہابھارت اور گیتا میں زمین پر جنگ دیکھ رہے ہیں دوسرا لوگوں کے ذہن و دل میں خیر و شر کو لے کر کشمکش سمجھتے ہیں،1926ءمیں جب گاندھی جی گیتا کی تصریحات لکھ رہے تھے تو انہوں نے 4مارچ1926 ءکو لکھا ” میں لندن میں مختلف انقلابیوں سے تبادلہ خیال کیا کرتا تھا، شیام جی کرشن ورما اور ساورکر وغیرہ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ آپ کی تشریح گیتا، رامائن کے بیانات کے منافی ہے، اس وقت مجھے ایسا لگتا تھا کہ اگر بیاس جی نے برہم علم کی ہدایت دینے کے لیے ایسی بھیانک جنگ کا منصوبہ نہ بنایا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا، کیوں کہ جب اچھے ذی علم، گہرائی سے غور و فکر کرنے والے لوگ بھی ایسا مطلب نکالتے ہیں تو تو عام آدمی کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ بعد میں جب ساورکر کے بھائی لندن پہنچے تو پتا چلا کہ ان پر بھی گیتا، مہابھارت کا مبنی بر جنگ مفہوم ہی حاوی ہے، 1909 ءمیں جب مدن لال ڈھینگرا نے لندن میں کرزن وائیلی کا کھلے عام گولی مارکر قتل کر دیا تو اس کے پس پشت ساورکر برادر کی ترغیب مانی جا رہی تھی، گاندھی جی نے سخت الفاظ میں لکھا تھا کہ سزا ڈھینگرا کو نہیں بلکہ اسے سیکھ دینے والے کو دی جانی چاہیے، گاندھی جی نے یہ بھی لکھا تھا کہ قتل نشے میں کیا گیا کام ہے، نشہ صرف شراب اور بھنگ کا ہی نہیں ہوتا ہے ،کسی جنون سے پر خیال کا بھی ہو سکتا ہے“۔
اس تنقید کے باوجود بھی گاندھی جی ساورکر جیسے مخالف سے بھی بات چیت کا سلسلہ قائم رکھنے کے حق میں تھے،وہ امید قائم کرتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت میں لگانے پر نظر رکھتے تھے،اس کی گاندھی جی میں زبردست صلاحیت تھی، گاندھی جی، ساورکر کی طرف سے شدھی تحریک میں تعاون اور حصے داری کے خلاف تھے، اس تناظر میں 1مارچ1927 کو رتناگیری میں ساورکر سے مل کر کہا تھا کہ متنازعہ اور اختلافی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کی ضرورت ہے اگر ضرورت محسوس ہوئی تو دوتین دن میں رتناگیری میں قیام بھی کر سکتا ہوں، اس پر ساورکر نے گاندھی جی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ آزاد ہیں اور میں بندھن میں ہوں، میں آپ کو اپنی جیسی حالت میں ڈالنا نہیں چاہتا ہوں پھر بھی میں خط و کتابت ضرور کروں گا، دونوں کے درمیان کی بات چیت، 17مارچ 1927ءکے ’ینگ انڈیا‘ میں شائع ہوئی ہے، بعد کے دنوں میں گاندھی ساورکر تعلقات کا حوالہ اس وقت ملتا ہے جب 1933ءمیں ساورکر نے مندر داخلہ کی مہم شروع کی اور2 مندر کو دلتوں کے لیے کھولنے کا پروگرام رکھا تھا، اسی دوران میں گاندھی جی نے رتناگیری کے اپنے ایک معاون جے کر کو25فروری1933 ءمیں ایک خط میں لکھتے ہیں” پتا نہیں تقریب افتتاح کے متعلق لکھا میرا مکتوب ونائک راو تک پہنچا سکے تھے کہ نہیں، اس نے رتناگیری میں بہت اچھا سماجی کام کیا ہے اور آپ افتتاحی تقریب میں شریک نہیں ہو سکے ، اس سے شری یوتکر کو بڑی مایوسی ہوئی ہوگی۔
1937ءمیں رہائی کے بعد ساورکر ہندو مہا سبھا کے صدر بنے اور اس منصب پر1943ءتک فائز رہ کر قیادت کرتے رہے تھے، اس دوران کی یہ بات دلچسپ ہے کہ1939 ءمیں ساورکر اور ان کے معاونین نے ڈاکٹر امبیڈکر سے مل کر ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا کہ کانگریس اور مسلم لیگ بھارت کے تمام باشندوں یا ان کی اکثریت کی بھی نمائندگی نہیں کرتی ہے اور سرکار، کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان ہونے والے کسی بھی آئینی و انتظامی سمجھوتے کو ماننے کے لیے ہندستانی باشندے پابند نہیں ہیں، اس تناظر میں 12اکتوبر1939 ءکو گاندھی جی، ہری بھاو پھاٹک کو ایک خط میں لکھتے ہیں ۔
”تاتیا (ساورکر) جی نے جو کچھ تم سے کہا ہے تو وہ ان کی پرانی شکایت ہے، مجھے گھمنڈ نہیں ہے ،اس سلسلے میں خود قصور وار نہیں مانتا، ان کا اور ان کے دوستوں کا دل جیتنے کی میں نے بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا، اب چوں کہ تم نے میری بات سن لی ہے تو اب تم ہی مجھے بتاو کہ ان لوگوں کو جیتنے کے لیے مجھے کون سا جتن کرنا چاہیے۔‘‘
ملک کے مخصوص حالات میں گاندھی جی کے لیے عجیب کشمکش کی صورت حال تھی کہ ایک طرف وہ بھارت کے تکثیری سماج کو بنائے رکھنا چاہتے تو دوسری طرف ساورکر اور جناح اپنی اپنی فرقہ وارانہ سوچ کے تحت آگے بڑھ رہے تھے، گاندھی جی ان دونوں کو کسی بھی طرح منانا چاہتے تھے،ایک وقت ایسا بھی آیا جب ساورکر، جناح اور امبیڈکر تینوں نے ایکا کر کے کانگریس مخالف مورچہ بنا لیا تھا، اس پر گاندھی جی نے20 جنوری1940ءکے ہریجن میں ایک آرٹیکل بھی لکھا تھا، اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد1941ءمیں مسلم لیگ وزارت کی طرف سے پیش کردہ2 بل کے خلاف ہندو مہا سبھا نے کلکتہ میں ستیا گرہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، کانگریس میں رہ چکے، کلکتہ کے ایک ہندو مہا سبھا لیڈر منو رنجن چودھری نے گاندھی جی سے گزارش کی تھی کہ وہ ہندو مہا سبھا کے مجوزہ ستیا گرہ کی قیادت کریں تو انہوں نے1فروری1941ءکو بہت نرمی سے ایک خط میں چودھری کو لکھا ۔
” ستیا گرہ کی اپنی کچھ حدود و روایات ہیں اور پھر ہندو مہا سبھا کے بہت کم ممبران عدم تشدد میں یقین رکھتے ہیں، نہ تو شری ساورکر، نہ ہی ڈاکٹر مونجے اور نہ ہی بھائی پرمانند عدم تشدد میں یقین رکھتے ہیں، اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے، وہ اپنی آزاد رائے رکھنے کا حق رکھتے ہیں، لیکن میں ستیا گرہ کی قیادت نہیں کر سکتا، میرے خیال میں اتنا تو وہ خود مان لیں گے۔“
لیکن جب اسی سال دسمبر میں بہار سرکار نے ہندو مہا سبھا کے اجلاس پر روک لگا دی تو اسے گاندھی جی نے ہندو مہا سبھا کے جمہوری حق پر حملہ قرار دیتے ہوئے بہار سرکار کی سخت مذمت بھی کی اور27 دسمبر 1941ءکو ساورکر کی حمایت میں لکھا ۔
” مجھے تسلیم کرنا چاہیے کہ ساورکر، ڈاکٹر مونجے اور دیگر لیڈروں کو گرفتار ہوتے ہوئے دیکھ کر میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا ہے، کیوں کہ انھیں صرف اس لیے گرفتار کیا گیا ہے کہ انہوں نے عوامی امن کی حفاظت کے لیے، پوری احتیاط برتتے ہوئے، ایک محدود اجلاس کرنے کا ابتدائی بنیادی حق استعمال کرنے کی کوشش کی۔“
اس کا مطلب و مقصد ظاہر ہے کہ گاندھی جی چاہتے تھے کہ سبھا اور اس کے رہنما ساورکر جیسے لیڈر بھی ان کے عدم تشدد کے طور طریقے اور راستے پر چلنے کی کوشش اور سلیقہ سیکھ جائیں۔
یہی جذبہ گاندھی کو جناح اور لیگ کے پاس بھی لے جاتا تھا یہ اور بات ہے کہ اس کے نتائج واثرات بھی برآمد ہوئے ہیں ، ساورکر ، جناح کو مخاطب کرتے ہوئے ایک آرٹیکل میں گاندھی جی نے لکھا” میں ان کروڑوں ہندوؤں ، مسلمانوں اور غیر ہندو ؤں کے مشترکہ جذبے کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتا ہو جو اپنے آپ کو بھارت ماتا کی اولاد کہتے ہیں ، میں اس ملک کے ایک ایک آدمی کی آزادی کے لیے جی رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس کے لیے مرنے کی طاقت بھی حاصل ہوگی“ (ہریجن 19جولائی 1942)
باریکی سے گاندھی ، ساورکر کے مطالعے سے دونوں کے درمیان تعلقات کی جو نوعیت سامنے آتی ہے ۔ اس کا ہندوتوادی عناصر اور سنگھ کی پیش کردہ تعبیر و تصویر سے کوئی خاص لینا نہیں ہے ، گاندھی جی کا قتل ، ہندو مہا سبھا اور ساورکر کی کچھ الگ قسم کی شبیہ و تصویر پیش کرتاہے ،دونوںرامائن ، مہا بھارت، گیتا کی مختلف تعبیر و تصور کو ساورکر اور گاندھی جی کے فکرو کردار میں بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ دونوں کے تعلقات سے تکلیف دہ پیدا حالات سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے کہ سماج اور نئی نسل کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور نفرت انگیز تقسیم کے انتخاب میں عقل و بصیرت کا استعمال ہونا چاہیے ۔ جینے کی سیدھی راہ کے انتخاب کے لیے ضروری ہے کہ نظریاتی اور عمل اختلافات کے تناظر میں الگ الگ اور ساتھ ساتھ ہونے کی واقعی نوعیت کو جانا سمجھا جائے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)