تحریر:ٹی ایم ضیاء الحق
پروفیسر حسین الحق چشتی فکشن نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں انہوں نے کہانیاں بھی لکھیں ناول بھی لکھے بچوں کے لئے رسالے بھی نکا لے۔۔۔ ان کا فکشن اردو تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندی اور دوسری زبانوں کے رسائل و جرائد میں بھی ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔ وہ اس عہد کے ان فن کاروں میں سے تھے جن کا تخلیقی کینوس وسیع و ہمہ رنگ تھا۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کرتے ہوئے کئی ادبی اداروں نے انھیں مختلف اعزازات سے نوازا ہے ۔ آخری ایوارڈ انھیں ساہتیہ اکیڈمی کی طرف سے اِس سال ’اماوس کے خواب‘کے لیے ملا۔
پروفیسر حسین الحق کی پیدایش 1949 میں بہار کے شہر سہسرام میں ایک صوفی گھرانے میں ہوئی ۔ حسین الحق 2014 میں مگدھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ انھوں نے دو سو سے زیادہ کہانیاں اور درجنوں کتابیں لکھیں ۔ اردو ادب میں انہیں اعلی مقام حاصل ہے اور ان کی اعلی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا اس سے قبل پروفیسر حسین الحق کو بنگال اردو اکیڈمی، بہار اردو اکیڈمی کی جانب سے بھی ایوارڈز سے نوازا گیا، ساتھ ہی ملک کے ایک اور مشہور ایوارڈ ’غالب ایوارڈ‘ سے بھی موصوف کو سرفراز کیا جا چکا تھاـ۔
عہد ساز شخصیت کے مالک تھے، زہد و تقوی، بے نفسی و بے نیازی، اخلاص و للہیت کے خمیر سے ان کی شخصیت کی نمود ہوئی تھی۔
جب بھی پروفیسر حضرت حسین الحق چشتی صاحب کے دیدار کا شرف مجھے حاصل ہوا۔ میں عجیب کیفیت سے دو چار ہوا۔ آج تک اُن کی شخصیت کے سحر میں خود کو گرفتار پا تا ۔میں نے بڑے بڑے مفکرین اور فلاسفر دیکھے ہیں جن کے افکار و نظریات کے طلسم نے دنیا کو کئی عرصے تک اپنی گرفت میں رکھا لیکن ان میں سے بیشتر کی ذاتی زندگی سے دنیا بے خبر ہے، ان کے فکر و فلسفہ نے دنیا کو متاثر تو کیا لیکن مردم گری کا وہ کام ان سے نہ ہو سکا جو ہونا چاہیے تھا۔
پرو فیسر حسین الحق جب بھی کسی ادارہ تنظیم یا حکومت کی دعوت پر گیا سے باہر تشریف لے جاتے تو اس شہر میں مقیم قریبی یا عزیز سے ضرور ملتے ۔عظمت کی اس بلندی پر انسان یونہی نہیں پہونچ جاتا بلکہ اس کے لیے بڑے پختہ عزم اور اعلی کردار کی ضرورت ہوتی ہے اور جب کردار میں بلندی پیدا ہوتی ہے تبھی ماحول پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پروفیسر حسین الحق ایک مکمل اسلامی نظام زندگی کے قائل تھے، ان کی خواہش تھی کہ نئی نسل کے اندر صحیح اسلامی اسپرٹ پیداہو وہ اپنی زندگی پوری کی پوری اسلامی تشخص کے ساتھ گزاریں، عصری تعلیم کے ساتھ اسلامی علوم میں اصالت پیدا کریں ، دنیا کے کسی بھی گوشے میں جائیں تو داعیانہ صفات کے ساتھ جائیں ، اپنے علم اور اپنے کردار کی بنیاد پرپہچانے جائیں۔۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دونوں صاحبزادگان میں یہ خوبیاں پائی جاتی ہیں جب کے بڑے فرزند انجینئر ہیں اور چھوٹے ڈاکٹر۔ دونوں بچوں کے اندر اسلامی علوم بدرجہ اتم موجود ہیں۔
احمد شاذ قادری نے سچ ہی کہا ہے :
اٹھا ہے کون بزم زندگی سے
زمانہ آبدیدہ ہو گیا ہے