تحریر:فیضان احمد
اتر پردیش کے وارانسی میں کاشی وشوناتھ مندر کے احاطے میں بنی گیان واپی مسجد کا معاملہ ان دنوں خبروں میں ہے۔ سیاست کی گلیوں سے گزرتا ہوا گیان واپی مسجد کیس اب عدالت کی دہلیز تک پہنچ گیا ہے۔ جہاں ہندو اور مسلم دونوں فریق اپنے اپنے دعوے کر رہی ہیں۔ گیان واپی مسجد کے سروے کے درمیان ہندو فریق کی طرف سے خبر آئی کہ مسجد میں شیولنگ (گیان واپی مسجد میں شیولنگ) پایا گیا ہے۔ تو وہاں مسلم فریق نے اسے فوارہ قرار دیا۔
مسجد میں شیولنگ پائے جانے کی خبر کے بعد پورے معاملے کی بحث اسی شیولنگ کے ارد گرد ہو گئی۔ ویسے اس معاملے کی سماعت سپریم کورٹ سے لے کر وارانسی کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں چل رہی ہے۔ عدالت فیصلہ کرے گی کہ گیان واپی مسجد ہے یا مندر، گیان واپی کے اندر شیولنگ ملا ہے یا فوارہ ۔
لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب کسی ہندو فریق نے کسی دوسرے مذہبی مقام یا یادگار کے نیچے شیو لنگ یا شیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا ہو، بلکہ کئی اور مشہور مقامات ہیں جہاں کئی ہندو فریق کے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ شیو مندر یا شیو لنگ ہے۔ آیئے ایسی ہی کچھ مشہور مقامات کےبارےمیں آپ کو بتاتے ہیں ۔
مکہ المکرمہ کے نیچے شیولنگ
سعودی عرب میں واقع مکہ مدینہ اسلامی عقائد کے مطابق مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مذہبی مقام سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان لاکھوں کی تعداد میں ہر سال یہاں حج کرنے آتے ہیں ۔ گزشتہ کچھ برسوں سے ہند و فریق کا ایک طبقہ ’خانہ کعبہ ‘ جو مکہ میں ہے اس کے نیچے شیولنگ ہونے کادعویٰ کرتے ہیں۔ کچھ وقت پہلے سوشل میڈیا پر کعبہ شریف کےنیچے شیولنگ کی کچھ تصاویر بھی شیئر کی گئی جنہیں دی کوئنٹ سمیت دیگر تمام میڈیا اداروں کی فیکٹ چیک ٹیم نے غلط پایا۔
لیکن سوشل میڈیا پر مکہ مدینہ میں شیولنگ ہونے کا دعویٰ کرنے والے اب بھی وقتاً فوقتاً یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں، شاید اس سے بے خبر مکہ اور مدینہ صرف ایک جگہ نہیں بلکہ سعودی عرب کے دو مختلف شہروں کے نام ہیں۔ مکہ سے مدینہ کا فاصلہ تقریباً 450 کلومیٹر ہے۔
تاج محل: ایک شیو مندر؟
کچھ عرصہ قبل خود ساختہ مورخ پی این اوک نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں تاج محل کی ہندو نسل کے بارے میں مبینہ ثبوت پیش کیے گئے تھے۔ کتاب کی اشاعت کے بعد یہ تنازع کھڑا ہوا کہ تاج محل دراصل شیو مندر تھا۔ جن کا اصل نام تیجو مہالیہ ہے۔ ہندو تنظیموں نے اس پر سیاست کھیلنا جاری رکھا اور لکھنؤ کے نصف درجن وکلاء نے آگرہ کی عدالت میں دیوانی مقدمہ دائر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ تاج محل کی اصلیت کو مندر کے طور پر قبول کیا جائے اور اسے ’تیجو محلیہ‘ قرار دیا جائے۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی جانب سے آگرہ کی ایک عدالت میں تاج محل کو شہنشاہ شاہجہاں اور ان کی اہلیہ ممتاز محل کا مقبرہ قرار دینے کے بعد آخر کار حلف نامہ داخل کرنے کے بعد تاج محل کے مبینہ ماضی کو شیو مندر کے طور پر رکھنے کا تنازعہ بالآخر ٹھنڈا پڑ گیا۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے حلف نامہ کے بعد بھی ’تاج محل‘ کے ’تیجو محلیہ‘ ہونے کا دعویٰ سوشل میڈیا اور ٹی وی میڈیا میں اٹھایا جا رہا ہے۔
قطب مینار پر تنازع
دہلی کے قطب مینار کے نیچے ہندو مہاسبھا سمیت کئی دیگر ہندو تنظیموں نے کئی ہندو مندروں کا دعویٰ کیا ہے۔ اس میں شیو مندر اور جین مندر بھی شامل ہیں۔ یہ معاملہ دہلی کی ایک عدالت میں بھی زیر سماعت ہے۔
عدالت میں اعتراف کرتے ہوئے کہ قطب مینار کمپلیکس کے اندر متعدد ہندو مورتیاں موجود تھیں، اے ایس آئی نے کہا کہ 1914 سے یادگار قدیم یادگاروں کے تحفظ کے ایکٹ 1904 (اے ایم اے ایس آر ایکٹ) کے سیکشن 3(3) کے تحت محفوظ کیا گیاتھا اور کیا جا رہا ہے جس کی حیثیت۔ تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ دہلی کی ضلع عدالت میں کیس کی سماعت جاری ہے۔
دہلی، بھوپال کی جامع مسجد سمیت کئی دیگر مساجد پر دعویٰ
وارانسی میں گیان واپی مسجد کا معاملہ جیسے ہی منظر عام پر آیا، ملک بھر میں کئی جگہوں پر مساجد کے بارے میں یہ دعوے کیے جانے لگے کہ یہ مسجد شیو مندر یا کسی اور مندر کو گرا کر بنائی گئی ہے۔
ایسا ہی ایک معاملہ مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں بھی سامنے آیا جہاں ایک مقامی دائیں بازو کی ہندو تنظیم سنسکرت بچاؤ منچ نے دعویٰ کیا کہ پرانے بھوپال کے چوک بازار علاقے میں واقع جامع مسجد19 ویں صدی میں ایک شیو مندر پر بنی تھی۔ اس تنظیم نے ریاستی سرکار سے مسجد کا تفصیلی سروے آثار قدیمہ سے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس فہرست میں دہلی کی جامع مسجد بھی شامل ہے۔اکھل بھارت ہندو مہاسبھا نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر دعویٰ کیا ہے کہ دہلی کی جامع مسجد کے نیچے ہندو دیوتاؤں کی مورتیاں دفن ہیں۔ تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ جامع مسجد کی کھدائی کی جائے۔
کچھ اور مساجد ایسی ہیں جو اس قسم کے دعوؤں کی وجہ سے خبروں میں رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ میں اتر پردیش کے جونپور کی اٹالہ مسجد، مغربی بنگال کے مالدہ ضلع کی آدینا مسجد، بہار میں پٹنہ کی جامع مسجد اور دیگر شامل ہیں۔
کرشنا جنم بھومی- شاہی عیدگاہ مسجد
ایودھیا میں بابری کے انہدام کے بعد، ایک نعرہ بڑے پیمانے پر مقبول ہوا جو کچھ اس طرح تھا، ’ایودھیا تو جھانکی ہے، متھرا کاشی باقی ہے۔‘ اس نعرے میں کاشی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد کا ذکر ہے۔ دونوں پر ہی فی الحال تنازع جاری ہے ۔ دونوں کا معاملہ کورٹ پہنچ چکا ہے ۔
24 ستمبر 2020 کو لکھنؤ کی رہائشی اور وکیل رنجنا اگنی ہوتری اور چھ دیگر افراد نے شاہی عیدگاہ مسجد کو ’کرشنا جنم بھومی‘ نامی جگہ سے ہٹانے کے لیے نچلی عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ عرضی گزاروں نے یہ عرضی ’بھگوان شری کرشن کے اگلے متر‘ کے عنوان کے تحت دائر کی تھی۔
متھرا کی ضلعی عدالت نے 19 مئی کو 17ویں صدی کی شاہی عیدگاہ مسجد کو احاطے سے ہٹانے کی مانگ والی درخواست ک سماعت کے لئے منظور کرلیا، جو متھرا میں کٹرا کیشو دیو مندر کے ساتھ لگی ہوئی ہے ۔
ان سب کے علاوہ ملک بھر میں ایسی کئی مساجد اور عمارتیں ہیں، جن کے نیچے وقتاً فوقتاً مندر کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔ قطب مینار، شاہی عیدگاہ مسجد، گیان واپی مسجد کیس کی مختلف عدالتوں میں سماعت جاری ہے۔ ان سب پر عدالت کے فیصلے ملک کی دیگر قدیم عمارتوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ ہندی )