ڈاکٹر عذرا انجم
میڈیکل آفیسر یونانی حکومت دہلی
حکیم اجمل خان (1868-1927) برصغیر کی تاریخ میں ایک منفرد اور درخشندہ مقام رکھتے ہیں۔ وہ ایک عظیم طبیب، محقق، ماہرِ تعلیم، سماجی مصلح، سیاستدان، اور شاعر تھے۔ انہیں نہ صرف یونانی طب کی احیا و ترقی کا علمبردار مانا جاتا ہے، بلکہ وہ جدید سائنسی تحقیقات کو روایتی طب میں شامل کرنے کے زبردست داعی بھی تھے۔ ان کی علمی بصیرت، طبی مہارت، اور قومی خدمات نے انہیں "مسیح الملک” کا خطاب دلوایا، جو ان کے طبی کمالات اور قومی جذبے کا ایک روشن ثبوت ہے۔
*حکیم اجمل خان کا خاندانی پس منظر اور ابتدائی تعلیم*
حکیم اجمل خان ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جو صدیوں سے یونانی طب کے ماہرین پر مشتمل تھا۔ ان کے آبا و اجداد ترکستان کے علاقے کاشغر سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے اور مغلیہ دربار میں شاہی معالج کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کے دادا حکیم شریف خان اور والد حکیم غلام محی الدین اپنی زمانے کے ممتاز طبیبوں میں شمار کیے جاتے تھے۔
حکیم اجمل خان نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی، جہاں عربی، فارسی، اور یونانی طب کے بنیادی اصولوں سے آشنا ہوئے۔ بعدازاں انہوں نے طب کی رسمی تعلیم مدرسہ طبیہ میں مکمل کی، جہاں انہوں نے روایتی طب کو نہایت گہرائی سے سیکھا اور عملی تجربہ حاصل کیا۔
*یونانی طب میں حکیم اجمل خان کی تحقیق اور اصلاحات*
حکیم اجمل خان اس بات پر گہرا یقین رکھتے تھے کہ طب محض روایتی نظریات اور نسخوں پر منحصر نہیں رہنی چاہیے، بلکہ جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں اس میں بہتری لانا ضروری ہے۔ انہوں نے یونانی طب میں متعدد اصلاحات متعارف کرائیں، جن میں سائنسی بنیادوں پر ادویات کے اجزاء کی تحقیق، جدید تشخیصی طریقوں کا اطلاق، اور طبّی علوم کو سائنسی اصولوں کے مطابق ترتیب دینا شامل تھا۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ یونانی اور آیورویدک طب میں گزشتہ صدیوں سے کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی، جبکہ مغربی طب مسلسل ترقی کر رہی تھی۔ انہوں نے مغربی طب کے بعض اصولوں، خاص طور پر جراحی (سرجری) اور ادویات کی کیمیائی تحقیق کو یونانی طب میں شامل کرنے پر زور دیا۔
*مدرسہ طبیہ کی بنیاد اور طبی تعلیم میں اصلاحات*
1908 میں، حکیم اجمل خان نے مدرسہ طبیہ کی بنیاد رکھی، جسے بعد میں ترقی دے کر "آیورویدک اور یونانی طبیہ کالج” بنایا گیا۔ یہ ادارہ نہ صرف طبی تعلیم کا ایک ممتاز مرکز بن گیا بلکہ اس نے یونانی اور آیورویدک طب کی جدید تحقیق اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
مدرسہ طبیہ میں تدریسی نصاب کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا، جہاں روایتی طبی اصولوں کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی تحقیق کو بھی شامل کیا گیا۔ یہاں تجرباتی تحقیقات کے لیے خصوصی لیبارٹریز قائم کی گئیں، جہاں یونانی اور آیورویدک ادویات کے کیمیائی تجزیے کیے جاتے تھے۔
*ہندوستانی دواخانہ: روایتی ادویات میں جدیدیت کا آغاز*
1915 میں، حکیم اجمل خان نے "ہندوستانی دواخانہ” قائم کیا، جس کا مقصد یونانی اور آیورویدک ادویات کو جدید سائنسی معیار کے مطابق تیار کرنا تھا۔ اس دواخانے میں روایتی جڑی بوٹیوں پر تحقیق کی جاتی اور ان کے فعال اجزاء کو جدید طریقوں سے کشید کیا جاتا تھا۔
یہاں ایک تحقیقی کمیٹی قائم کی گئی، جس میں ماہرینِ کیمیا، نباتات، اور دواسازی شامل تھے۔ اس کمیٹی کا کام یونانی اور آیورویدک ادویات کا سائنسی تجزیہ اور ان کی افادیت کو ثابت کرنا تھا۔
*یونانی طب میں تحقیقاتی اداروں کا قیام*
1926 میں، حکیم اجمل خان نے "مجلس تحقیقات علمی” (ریسرچ کمیٹی) قائم کی، تاکہ یونانی طب کو جدید سائنسی تحقیق کے ذریعے مزید ترقی دی جا سکے۔ اس کمیٹی میں شامل افراد نے یونانی ادویات پر کیمیائی اور طبی تحقیق کی، جن کے مثبت نتائج بعد میں کئی جدید تحقیقات کی بنیاد بنے۔
ان کے دور میں کیے گئے تحقیقی کاموں کے نتیجے میں کئی یونانی ادویات کو جدید طب میں شامل کیا گیا، جن میں "راوولفیا سرپینٹینا” (اسرول) بطور خاص قابل ذکر ہے۔ یہ دوا بعد میں جدید میڈیکل سائنس میں ہائی بلڈ پریشر کے علاج کے لیے استعمال کی جانے لگی۔
*حکیم اجمل خان کا سیاسی اور سماجی کردار*
حکیم اجمل خان صرف طبیب اور محقق ہی نہیں تھے، بلکہ وہ ایک ممتاز قومی رہنما بھی تھے۔ وہ گاندھی جی اور ڈاکٹر انصاری کے ساتھ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں سرگرم رہے اور کئی قومی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ خلافت تحریک کے سرگرم رہنما تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے پلیٹ فارمز پر بھی کام کرتے رہے۔
انہوں نے قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے بھی قابلِ قدر خدمات انجام دیں اور ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے۔ ان کی شخصیت میں حکمت، بصیرت، اور قیادت کے وہ تمام اوصاف موجود تھے جو ایک عظیم رہنما میں ہونے چاہئیں۔
*یونانی طب پر حکیم اجمل خان کے علمی اثرات*
حکیم اجمل خان نے یونانی طب میں جدید سائنسی اصولوں کی روشنی میں تحقیق اور تدریس کو فروغ دیا۔ ان کے کاموں کی وجہ سے یونانی طب کو ایک نیا وقار ملا اور اسے جدید طب کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے دروازے کھلے۔
ان کی طبی اور تحقیقی خدمات کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے 1969 میں "سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن” (CCRUM) قائم کی گئی، جس کا مقصد یونانی طب پر سائنسی تحقیق اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ 1978 میں اس ادارے کو مزید ترقی دی گئی اور مختلف تحقیقی منصوبے شروع کیے گئے، جن میں طبی جڑی بوٹیوں کی سائنسی تحقیق، معیاری دواسازی، اور روایتی ادویات کو جدید طب میں شامل کرنے کے منصوبے شامل تھے۔
*نتیجہ*
حکیم اجمل خان بیسویں صدی کی ایک درخشندہ شخصیت تھے، جو بیک وقت طبیب، محقق، سماجی مصلح، ماہرِ تعلیم، سیاستدان، اور شاعر تھے۔ انہوں نے یونانی طب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے انتھک محنت کی اور اس میں سائنسی تحقیق کو شامل کرنے کی راہ ہموار کی۔
انہوں نے طبی تعلیم، ادویات کی تیاری، اور طبی تحقیق کے شعبوں میں قابلِ قدر اصلاحات متعارف کرائیں، جن کی بدولت یونانی طب آج بھی برصغیر میں ایک مستند اور مؤثر طریقہ علاج کے طور پر رائج ہے۔ ان کی تحقیقی بصیرت اور طبی مہارت آج بھی طبّی دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہے، اور ان کے علمی ورثے کو جدید تحقیق کے ذریعے مزید فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
حکیم اجمل خان کی شخصیت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اگر روایتی علوم کو جدید تحقیق کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے تو نہ صرف ان کی بقا ممکن ہے، بلکہ وہ ترقی کی نئی منازل بھی طے کر سکتے ہیں۔ ان کا علمی و طبی ورثہ آج بھی اہل تحقیق کے لیے مشعلِ راہ ہے اور طبّی دنیا میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔