تحریر:| نرمل چندر استھانا
گزشتہ 17-19 دسمبر کے دوران ہری دوار میں ایک نام نہاد دھرم سنسد کا اہتمام کیا گیا۔اس میں کئی ہندو مذہبی رہنماؤں اور شدت پسندوں نے اظہار خیال کیا۔ان میں سے کئی لوگوں کی تاریخ اان کی ور سیاسی وابستگی کا انکشاف پہلے ہی کیا جا چکاہے۔بعض کے خلاف پہلے سے کئی مقدمات درج ہیں۔اس دھرم سنسد کا تھیم تھا ‘اسلامی ہندوستان میں سناتن کا مستقبل: مسائل اور حل’۔ مجھے نہیں پتہ کہ ان کے علاوہ ملک میں ایسا کون شخص، عدالت یا حکومت ہے جو یہ مانتا ہو کہ ہم ‘اسلامی ہندوستان’میں رہ رہے ہیں۔
مردم شماری(2011)کے اعداد و شمار سب کے سامنے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کا فیصد 14.2 ہے اور ہندوؤں کا فیصد79.8ہے۔ اب کوئی نہیں جانتا کہ ہندوستان اسلامی کیسے ہوا؟ ظاہر ہے، یہ’ہندو خطرے میں ہے’کے گھسے پٹے راگ کو ہی ایک نئے سر میں پیش کرنے کی سعی ہے۔سنسد کے دوران قابل اعتراض اور اشتعال انگیز تقاریر کی گئیں۔ بعض مقررین گھما پھرا کر باتیں کر رہے تھے۔ لیکن ان باتوں کو ان کےمکمل سیاق وسباق میں دیکھنےسےمعلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ تو ہوا میں تیر چلا رہے تھے اور نہ ہی کوئی نظریاتی بات کر رہے تھے۔وہ صرف اس ملک اور یہاں رہنے والے مسلمانوں کی بات کر رہے تھے، بھلے ہی گول مول باتوں کی وجہ سے ان کے خلاف مقدمہ نہ بن پائے۔
غیر ملکی میڈیا میں بھی اس کو لے کرشدید ردعمل سامنے آیا ہے اور کہا گیا ہے کہ حکومت نے مسلم دشمنی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔پاکستانی صحافی حامد میرنے ہری دوارواقعہ کےایک ویڈیو کلپ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ہےکہ’خاتون مقررثابت کر رہی ہیں کہ محمد علی جناح بالکل صحیح تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے الگ پاکستان بنایا ۔ شکریہ جناح صاحب۔ابھی تک ویڈیو کی صداقت سے انکار نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ ویڈیوز پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکے ہیں۔ایسے بیانات جو واضح طور پر جرم ہی ہیں۔
سیڈیشن:
ایک مقررنے کہا کہ تین دن کے بعد اس سنسد سے جو ‘امرت’ نکلے گا وہ ایک مینڈیٹ ہوگا اور دہلی، یوپی، اتراکھنڈ اور دیگر ریاستوں میں جو جمہوری حکومتیں ہیں وہ اس کو ماننے کو مجبور ہوں گی۔ اگر وہ نہیں مانتی ہیں تو 1857 کی بغاوت سے بھی خوفناک جنگ لڑی جائے گی۔یہ سب کو معلوم ہے کہ 1857 کی بغاوت انگریزی حکومت کے تختہ پلٹ کے لیے کی گئی تھی۔ واضح ہے کہ اس سے موازنہ کرتے ہوئے مقرر دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر آئینی طور پر قائم حکومتوں نےان کے مینڈیٹ کی پاسداری نہ کی تو ان کے تختہ پلٹ کے لیے جنگ چھیڑ دی جائے گی۔سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کےکیدار ناتھ سنگھ (1962)کے مشہور فیصلے کےتناظرمیں حکومت کو اس طرح کی دھمکیاں دینا واضح طور پر سیڈیشن ہے۔ عدالت نے واضح طور پر کہا تھا کہ حکومت پر کوئی بھی تنقید قابل معافی ہے لیکن تشدد کے ذریعے اس کا تختہ پلٹ کرنے کی بات کرنا سیڈیشن ہے۔
مجرمانہ دھمکی:
مقررنے یہ بھی کہا کہ ہری دوارکا کوئی بھی ہوٹل اگر کرسمس یا عید مناتا ہےتو وہ اپنے شیشے توڑوانے کے لیے تیار رہیں۔یہ نہ صرف آئینی طور پر مذہبی آزادی اور روزگارکے حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ مجرمانہ دھمکی کے لیے قابل سزا بھی ہے۔
آرمس ایکٹ:
دو مقررین نے اپیل کی کہ لوگ گھروں تلواریں رکھیں۔ایک کا کہنا تھاکہ وہ گھر میں گھس پیٹھیوں کو مارنے کے کام آئیں گی۔ دوسرے نے دھاردار تلواریں رکھنے کی بات کی۔ پھر اسے لگا کہ اس میں کوئی قانونی مسئلہ ہو سکتا ہےتب اس نے کہا کہ کوئی افسر پوچھے تو کہہ دینا کہ دیوی پوجا کے لیے رکھی ہے۔لیکن اس کومعلوم نہیں تھا کہ دیوی کی پوجا کی یہ دلیل کام نہیں آئے گی۔آرمس رولز 2016 کے تحت تقریباً تمام ریاستی حکومتوں نے نوٹیفیکیشن جاری کر کے تلواریں، بلم نیزہ وغیرہ رکھنے کے لیے اسلحہ لائسنس کا ہونا لازمی قرار دیا ہے۔ اس لیےانہیں بغیر لائسنس کے رکھنا آرمز ایکٹ کے تحت جرم بن جائے گا۔واضح ہو کہ تقریب کے دوران ان ہتھیاروں کی کھلے عام نمائش بھی کی گئی۔
پولیس اور فوج کے درمیان عدم اطمینان، بدنظمی اور بغاوت کو ہوا دینا:
ایک مقرر نے میانمار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس، فوج اور لیڈروں کو یہاں بھی’صفائی مہم’چلانی چاہیے۔ انہوں نے اس نام نہاد ‘صفائی مہم’ کی وضاحت نہیں کی، لیکن چونکہ سب جانتے ہیں کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی تھی، اس لیے مقرر کی نیت واضح تھی اور اشارہ صاف تھا۔ملک میں پولیس اور فوج صرف وہی کام انجام دے سکتے ہیں جو قانون اور آئین کے تحت ہیں۔ کوئی بھی ‘صفائی مہم’ ان کے سرکاری فرائض میں نہیں آتی۔اس لیے بحث کے لیے مقرر کی نیت کو ایک بارنظر انداز بھی کر دیں تو بھی حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پولیس اور فوج سے اس کا م کا مطالبہ کیا جو قانونی نہیں ہے۔یہ پولیس(ان سائٹمنٹ ٹو ڈس افیکشن)ایکٹ 1922 کے سیکشن 3 کے تحت بغاوت اورحکومت سے بغاوت (جو کہ آئی پی سی سیکشن 124اے کے مطابق ایک ڈس انفیکشن ہے) کے لیے اکسانے کا جرم ہے۔
جھوٹی ایف آئی آر:
ایک مقرر نےبڑے بے شرمی سے کہا کہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے، ایس سی/ایس ٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ کو ان کے خلاف ایس سی/ایس ٹی ایکٹ، 1989 کے تحت جھوٹی ایف آئی آر درج کرا دیا کریں۔یہ آئی پی سی کی دفعہ 182 اور 211 کے تحت قابل سزا جرم بنے گا
۔
ایسے بیانات جو قابل مذمت ہیں لیکن قانون کے تحت جرم نہیں
ایک مقرر نے کہا کہ اگر ہم ان کی آبادی کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مارنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور اگر ہمیں 100 فوجی بھی مل گئے تو وہ 20 لاکھ کو مار سکتے ہیں۔ یہاں ‘اگر’ کے استعمال نے بچا لیا۔دوسرے نے پارلیامنٹ میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر اقلیتوں کا پہلا حق ہے۔ مقرر نے کہا کہ اگر میں ایم پی ہوتا اور میرے پاس ریوالور ہوتا تو میں انہیں چھ گولیاں مار دیتا۔ یہ خیالی بات ہے اور ملک کے قانون میں ‘تھاٹ کرائم‘ کا کوئی تصور نہیں ہے۔کئی مقررین نے ایک لاکھ روپے کا اسلحہ رکھنے کی بات کہی۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ وہ کس ہتھیار کی بات کر رہے تھے لیکن قانون کی نظر میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ غیر قانونی ہتھیار رکھنے کی بات کر رہے تھے۔
ایک اور مقرر نے کہا کہ وہ کسی ایسے نوجوان سنیاسی کو ایک کروڑ روپے دیں گے جو ہندو پربھاکرن بننے کو تیار ہو۔ اگر کوئی ان سے پوچھے کہ جس نے پہلے ہی سنیاس لےلیا ہو وہ ایک کروڑ روپے کا کیا کرے گا بھلا؟انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندو مذہب کے تحفظ کے لیے ہر مندر میں پربھاکرن، بھنڈرانوالے اور شابیگ سنگھ کا ہونا ضروری ہے۔ حالاں کہ ان کا مفہوم واضح تھا، لیکن قانون کی نظر میں دہشت گرد کی تعریف کرنا جرم نہیں ہے۔میڈیا میں 2017 یہ خبر آئی تھی کہ گولڈن ٹیمپل کے سینٹرل سکھ میوزیم میں دس سکھ گروؤں کے ساتھ بھنڈراوالے کی تصویر بھی احترام کے ساتھ رکھی گئی ہے۔اس طرح کی تمام باتیں قدرے گول مول ہونے کی وجہ سےقانون کی نظر میں بھلے ہی کوئی جرم نہ ہو، لیکن پورے سیاق وسباق میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کس طرح عوامی فورم سے ملک کے مسلمانوں کے خلاف زہر فشانی کی گئی ۔
پولیس کیا کر رہی ہے؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق، پولیس نےکسی گل بہار خان کی شکایت پر جتیندر نارائن سنگھ تیاگی(جو کچھ دن پہلے تک وسیم رضوی نام کے مسلمان تھے)اور دیگر کے خلاف دفعہ 153اے(گروہوں کے درمیان دشمنی)کے تحت مقدمہ درج کیاہے۔سچ یہ ہے کہ تمام اہم مقررین معروف ہندو شدت پسند مذہبی رہنما تھے جنہوں نے لمبی لمبی تقریریں کیں۔ تیاگی ہندو بھی ابھی ہی بنے ہیں، مذہبی رہنما کیا ہوئے کہا اور کیا بول دیے؟
اس تفصیلی قانونی بحث کے بعد واضح ہوجانا چاہیے کہ پولیس کی یہ کارروائی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی طرح ہے۔ وہ صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ کیس تو کیا گیا ہے۔یہ کیس شروع سے ہی کمزور ہوگا کیونکہ بہت سے مقررین گول مول باتیں کر رہے تھے۔ایک طرف آگرہ پولیس تین کشمیری طلبہ کے خلاف صرف اس الزام میں سیڈیشن کا مقدمہ چلانے کی اجازت حکومت سے مانگ رہی ہے کہ انھوں نے کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی جیت کا جشن مناتے ہوئے وہاٹس ایپ پر کچھ پیغامات شیئر کیے تھے۔
دوسری طرف اتراکھنڈ پولیس ان لوگوں پر بھی مقدمہ نہیں چلا رہی جو آئینی طور پر قائم حکومتوں کو کھلم کھلا چیلنج کر رہے ہیں کہ ؛اگر ان کی بات نہ سنی گئی تو وہ 1857 کی بغاوت سے بھی خوفناک جنگ چھیڑ کران کا تختہ پلٹ کر دیں گے۔پولیس یہ احمقانہ دلیل نہیں دے سکتی کہ اسے مذکورہ الزامات کی کسی سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔کیا وہ نہیں جانتے کہ سپریم کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ نے این ایس گیانیشور(2013)کے معاملے میں حکم دے رکھا ہے کہ قابل گرفت جرائم کے لیے پولیس کو شکایت کنندہ کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور وہ کسی دوسرے ذرائع سے اطلاع ملنے پر خود ہی مقدمہ درج کر کے اس کی تفتیش کر سکتی ہے؟ظاہرہے کہ اتراکھنڈ پولیس اس معاملے میں قانون اور آئین کے لیے نہیں بلکہ حکمراں جماعت کے لیے کام کر رہی ہے۔
معاشرے اور ملک کے لیے چیلنج
اپنی قانونی ذمہ داری سے پولیس کا اس طرح سے غیر پیشہ ورانہ طور پر اور بے شرمی سے دستبردار ہوجانا ملک اور معاشرے کے لیے ایک ناخوشگوار علامت ہے۔ اس سے ملک کے شہریوں بالخصوص مسلمانوں کا ملک میں ’قانون کی حکمرانی‘(رول آف لاء)سے بھروسہ کمزور ہو گا۔مانا کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلےبھی ایک مضمون میں کہا تھا کہ ملک فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بغیر چل سکتا ہے لیکن فرقہ وارانہ امن کے بغیر نہیں۔
فرقہ وارانہ امن برقرار رکھنا پولیس کا فرض ہے۔ اگر پولیس مناسب قانونی کارروائی نہیں کرتی ہے تو یہ فرقہ وارانہ امن برقرار رکھنے میں رکاوٹ پیدا کرے گی۔مذہب کے نام پر نفرت پھیلاتے ہوئے بڑے پیمانے پر تشدد کی باتیں اس نگری میں ہوئیں جسے ‘بھگوان کا دوار’کہا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ویدک ہندو روایت میں بھگوان کی پوجاکے اختتام پر دنیا میں امن کی خواہش کرتے ہوئے ‘اوم شانتی، شانتی، شانتی’ کہا جاتا ہے۔
(بشکریہ: دی وائر :یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں )