تحریر : مسعود جاوید
میرے خیال میں یہ بھی منافقت ہے کہ مسلمان کہنے کی بجائے’’دھرم وشیس‘‘ (خاص مذہب) سمودای وشیس (مخصوص فرقہ) یا الپ سنکھیک (اقلیت ) کی اصطلاح استعمال کیا جائے۔ جب نشانے پر مسلمان ہوں تو نام لینے میں حرج کیا ہے !
میڈیا والے پہلے صحافتی ضوابط کا خیال رکھتے تھے جس کی رو سے مثال کے طور پر فرقہ وارانہ فسادات کے موقع پر وہ لکھتے تھے کہ دو فرقوں میں تصادم یا خونی تصادم کے نتیجے میں دو کی موت اور تقریباً پچیس زخمی ہوئے۔ مرنے والوں اور زخمی لوگوں کی مذہبی شناخت (آئیڈنٹیٹی) ظاہر نہیں کی جاتی تھی مبادا متاثر فرقہ کے لوگ طیش میں آکر کہیں اور انتقامی کارروائی میں ملوث ہو جائیں۔
لیکن اب تو ملک کا ماحول اتنا زہریلا ہوتا جا رہا ہے کہ کھلے اجلاس میں علی الاعلان مسلمانوں کو مارنے کاٹنے کی بات کی جا رہی ہے۔سوشل میڈیا کے اس دور میں صحافتی ضوابط پر عمل بھی کیسے ہو۔ لائیو ٹیلی کاسٹ، اور وائرل ویڈیو کو سینسر کرنا بھی کارے دارد !
تاہم یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ انتظامیہ کی موجودگی میں ایسی زہر آلود تقریریں ہوئیں پھر بھی انتظامیہ کو ایف آئی آر کا انتظار رہا !
چند روز قبل ہری دوار میں ’دھرم سنسد‘ یعنی مذہبی پارلیمنٹ منعقد ہوا اور تین دنوں تک جاری رہا۔ اس سنسد میں ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی کھلے عام دعوت دی گئی اور عہد و پیمان کیا گیا۔
اسی سنسد میں پرامن جدوجہد کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کی علامت مہاتما گاندھی کو گالیاں دی گئیں اور ان کے قاتل گوڈسے کو جانباز ہیرو اور دیوتا مانند قابلِ ستائش شخصیت کے خطاب سے یاد کیا گیا !
بعض لوگوں نے ردعمل کے طور پر یہ کہا کہ اتراکھنڈ میں بی جے پی حکومت ہے اس لئے انتظامیہ ایکشن لینے میں پس و پیش کر رہی ہے۔ لیکن اس سے پہلے دہلی میں بھی اسی طرح کے اجلاس ہوئے تھے اور ہری دوار کے بعد، رائے پور چھتیس گڑھ جہاں کانگریس کی حکومت ہے، میں دھرم سنسد کا انعقاد ہوا اور اسی طرح کے زہر اگلے گئے۔
مذکورہ بالا اجلاس کا محور گفتگو ایک ہی تھا ؛ دستور ہند کی دھجیاں اڑانا۔ لیکن انتظامیہ کی سردمہری کو دیکھ کر اس ملک کے انصاف پسند شہری خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلم ، سکھ ہوں یا عیسائی، سب حیرت زدہ ہیں۔
قیاس تو یہی کیا جا رہا ہے کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو ملک، دستور ہند، اور مختلف فرقوں کے مابین باہمی رواداری کا ماحول کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں جو ظاہر ہے ملک کی تعمیر و ترقی میں روڑا ثابت ہوگا۔ لیکن یہ بھی نوٹ کرنا چاہئے کہ ان کا دائرہ کار میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔
مذکورہ بالا اجلاس میں کی گئی تقریروں کے کئی پہلو ہیں:
1- اظہار رائے کی آزادی اس کے تحت اپنی ذاتی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں کہ وہ اس ملک کو سیکولر کی بجائے ہندو راشٹر دیکھنا چاہتے ہیں۔
تاہم اس اظہار رائے پر دستور ہند بندش لگاتا ہے اس لئے کہ دستور ہند کی رو سے یہ ایک سیکولر ملک ہے بایں معنی کہ مذہب خواہ کوئی بھی ہو وہ ریاست سے جدا ہوگا۔ بالفاظ دیگر ریاست یعنی ہندوستان کا کوئی مذہب نہیں ہوگا ہاں ہندوستان کے شہریوں کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کے مذہب کی اتباع کرے ، دستور ہند کی رو سے شہریوں کو اس کی بھی آزادی ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کی اتباع نہیں کرے۔
دستور ہند کسی خارجی طاقت نے ہم ہندوستانیوں پر مسلط نہیں کیا ہے بلکہ یہ ہندوستان کے عوام نے اپنی رضامندی سے اپنے لئے اختیار کر کے اپنے اوپر نافذ کیا ہے۔
سیکولرازم دستور ہند کی روح ہے اور اس پر روز اول سے مکمل طور پر عملدرآمد ہوتا آیا ہے گرچہ تحریری شکل میں 1976 میں لفظ ’سیکولر‘ اور’سوشلسٹ‘کا اضافہ دستور میں کیا گیا تھا۔
اگر اکثریتی فرقہ کے کچھ لوگ ہندوستان کو سیکولر کی بجائے ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں تو موجودہ دستور کے ہوتے ہوئے سردست اس کی گنجائش نہیں ہے اس لئے کہ ملک کے دستور کو بدلنے کے لیے ریفرنڈم رائے شماری کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ رائے شماری عوامی نمائندوں کے ذریعے پارلیمنٹ و اسمبلیز میں نہیں عام لوگوں کی رائے لے کر ہی ہو سکتی ہے۔
2- جمہوری نظام میں سر گنے جاتے ہیں تو کیا اکثریت کی رائے پر سیکولر ملک کو ہندو راشٹر اب بنایا جا سکتا ہے؟ کیا اقلیتوں کی رائے ،جن کی تعداد ظاہر ہے کم ہوگی، کا کوئی وزن نہیں ہوگا ؟
یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب لایعنی باتیں اور خام خیالی ہے لیکن اس سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ ایسی باتوں سے فرقہ وارانہ ماحول بنتا ہے اور نزلہ عضو ضعیف پر گرتا ہے تو ظاہر ہے مسلمان سہمے ہوئے ہیں۔
3- کھلے عام قتل اور نسل کشی کے لئے ورغلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی انتظامیہ اور نظم و نسق کی حفاظت کرنے والے محکموں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس نہ جانے کیوں اب تک ایسی باتیں کرنے والوں پر قدغن لگانے اور قانون کا دبدبہ قائم رکھنے کے تعلق سے متعلقہ محکمے فعال نظر نہیں آرہے ہیں !
قابلِ اطمینان بات یہ ہے کہ سول سوسائٹی اور لبرٹی سے وابستہ کئی لوگوں نے مسلمانوں کی نسل کشی والے بیان اور مہاتما گاندھی کے لئے توہین آمیز زبان استعمال کرنے والوں کے خلاف احتجاج درج کرایا ہے۔ پچاس سے زائد سینئر وکلاء نے سپریم کورٹ کے ججوں سے درخواست کی ہے کہ وہ ازخود نوٹس لیں۔