لکھنؤ: ہاتھرس گینگ ریپ اور 20 سالہ متاثرہ کی موت معاملے میں سماعت کررہی ہے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے کہاکہ وہ اس کیس کے ٹرائل کو ہاتھرس سے باہر بھیج سکتی ہے۔عدالت کا تبصرے تب آیا ہے جب متاثرہ کے بھائی نے ایک حلف نامہ داخل کرکے بتایا تھا کہ اس مہینے سماعت کے دوران متاثرہ کے اہل خانہ اور ان کے وکلاء کو دھمکیا ملی تھیں اور ان پر دباؤ بنایا جارہا تھا۔
الہ ّباد ہائی کورٹ میں داخل کیے گئے اس حلف نامہ میں متاثرہ کے بھائی نے بتایا کہ یہ واقعہ ہاتھرس کی خصوصی عدالت میں 5 مارچ کی سماعت کے دوران پیش آیا تھا۔ ہائی کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے اس واقعہ پر رپورٹ طلب کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس امکان پر غور کرے گی کہ کیس کو اسی کورٹ میں رکھنا ہے یا پھر کہیں اور ٹرانسفر کرنا ہے۔ بنچ نے بتایا کہ سی بی آئی بھی اس کیس کو ہاتھرس سے کسی دوسری ریاست میں منتقل کرنے کے حوالہ سے عرضی داخل کر سکتی ہے۔
عدالت نے اپنے حکم میں متاثرہ کنبہ کی اہم قانونی مشیر سیما کشواہا کو ملی دھمکیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ ہاتھرس ضلع عدالت میں اس معاملہ کو اس وقت ملتوی کرنا پڑا جب ترون ہری شرما نامی ایک وکیل کمرہ عدالت میں داخل ہوا اور متاثرہ کنبہ کی وکیل سے مشتعل لہجہ میں بات کرنے کی کوشش کی، وکیل شرما نے سیما کشواہا پر چلا کر دھمکیاں بھی دی تھیں، حلف نامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وکیل شراب کے نشہ میں لگ رہا تھا۔
حلف نامہ کے مطابق اس دن سماعت کے دوران ایک بڑاہجوم نے جس میں کچھ وکلاء بھی شامل تھے، کورٹ روم میں گھس گئے اور متاثرہ کے اہل خانہ کے لوگوں اور ان کے وکیل کو گھیر کر دھمکی دینے کی کوشش کی تھی ۔یہ دیکھنے کے بعد کورٹ نے فوراً وکیل کو کورٹ کیمپس میں پولیس سیکورٹی دینے کا حکم دیا تھا ، حلف نامہ میں بتایا گیا ہے کہ اس کے بعد سے وکیل کورٹ میں سماعت کے لیے پیش نہیں ہوپائی ہیںکیونکہ ان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔