وقف ترمیمی ایکٹ کو لے کر ملک بھر میں ہو رہے احتجاج اور حمایت کے درمیان پہلی بار سپریم کورٹ میں بدھ 16 اپریل کو کیس کی سماعت ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن کی بنچ دوپہر 2 بجے کیس کی سماعت کرے گی۔ کل 72 درخواستیں سماعت کے لیے درج کی گئی ہیں۔
**چند اہم درخواستیں یہ ہیں:-
1. ایم آئی ایم لیڈر اسد الدین اویسی – 2 -ایم ایل اے امانت اللہ خان
3. مولانا ارشد مدنی (جمعیۃ علماء ہند)
4. ایس پی ایم پی ضیاء الرحمن برق
5. ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا
6. کانگریس ایم پی محمد جاوید
7. تمام کیرالہ جمعیت العلماء
8. آر جے ڈی ایم پی منوج جھا
8. انڈین یونین مسلم لیگ
9. جے ڈی یو لیڈر پرویز صدیقی
10. سید کلب جواد نقوی
ان کے علاوہ مولانا محمود مدنی ، صدر جمعیت ،جماعت اسلامی ہند،اے پی سی آر،کانگریس، ٹی ایم سی، ڈی ایم کے، سی پی آئی جیسی جماعتوں کے دیگر لیڈروں نے بھی عرضیاں داخل کی ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی درخواست دائر کی ہے۔ تمام درخواستوں میں بنیادی بات یہ کہی گئی ہے کہ یہ ایک ایسا قانون ہے جو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ وقف ایک مذہبی ادارہ ہے۔ اس کے کام میں حکومت کی مداخلت غلط ہے۔
**درخواستوں میں کیا کہا گیا؟
درخواست گزاروں نے کہا ہے کہ نیا وقف قانون آئین کے آرٹیکل 14، 15 (مساوات)، 25 (مذہبی آزادی)، 26 (مذہبی معاملات کا ضابطہ) اور 29 (اقلیتی حقوق) جیسے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ درخواست گزاروں نے یہ بھی کہا ہے کہ قانون میں تبدیلی آرٹیکل 300 اے یعنی جائیداد کے حق کے خلاف ہے۔ **قانون کی حمایت میں کئی عرضیاں
وقف ترمیمی ایکٹ کی حمایت میں بھی عدالت میں کئی درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ 7 ریاستوں – مدھیہ پردیش، راجستھان، ہریانہ، مہاراشٹر، اتراکھنڈ، آسام اور چھتیس گڑھ نے قانون کو عملی، شفاف اور منصفانہ قرار دیا ہے۔ کچھ قبائلی تنظیموں نے اس کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک ایسا قانون قرار دیا ہے جو ان کی برادری کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پرانے قانون کی وجہ سے وقف بورڈ درج فہرست قبائل کے لوگوں کی زمینوں پر بھی قبضہ کر رہا تھا۔ اب یہ ممکن نہیں ہو گا۔