تحریر: ماشا
کچھ عرصہ پہلے تک یہ بحث ہوتی تھی کہ کیا حجاب اور برقع خواتین پر ہراساں کرنے کے ہتھیار ہیں؟ کیا کپڑے کا ایک ٹکڑا عورتوں کے وجود پر سوال کڑےکرتا ہے؟ حجاب اس بات کا ثبوت ہے جسے انگریزی میںلیک آف ایجنسی ( Lac of Agency) کہتے ہیں، لیکن کرناٹک میں حجاب تنازع نے پوری بحث کو ایک مختلف سمت میں موڑ دیا ہے۔
ریاست میں کئی اسکول انتظامیہ اس کپڑے کے ٹکڑے کے لیے نفرت سے بھری ہوئی ہے، جو کہ جبر کا مبینہ ہتھیار ہے۔ اب یہاں حجاب صرف لیک آف ایجنسی نہیں دکھا رہا ہے۔ یہ عوامی مقامات پر خوف پیدا کرنا شروع کر دیا ہے۔ یا اس کے ذریعے عوامی مقامات پر خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔
برقع تنازع کی ایک طویل تاریخ ہے
اس جھگڑے کی تاریخ سات سمندر پار سے شروع ہوئی تھی۔ 1989 میں فرانسیسی اسکولوں میں حجاب پر بحث چھڑ ی۔ اسلامی اسکارف یا حجاب پر تنازع 18 ستمبر 1989 کو شروع ہوا، جب شمالی فرانس کے شہر کریل میں گیبریل ہیوز مڈل اسکول کی تین لڑکیوں کو صرف اس لیے اسکول سے معطل کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے حجاب اتارنے سے انکار کر دیا تھا۔
1994 اور 2003 کے درمیان، مڈل اور ہائی اسکول کی تقریباً 100 لڑکیوں کو حجاب پہننے کی وجہ سے معطل، یا نکال دیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے نصف سے زیادہ کیسز میں اسکول سے معطلی یا اخراج کو فرانسیسی عدالتوں نے کالعدم قرار دیا ۔ پھر بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔
اس وقت یورپ کے کئی ممالک نے عوامی مقامات پر چہرے کو ڈھانپنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں مارچ 2021 میں ایک قانون کے ذریعے عوامی مقامات پر چہرے کو ڈھانپنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ نیا قانون عام لوگوں کی رضامندی سے لایا گیا ہے جس کی قیادت وہاں کی ایک دائیں بازو کی تنظیم کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ڈنمارک، ہالینڈ اور آسٹریا نے بھی ایسی ہی پابندیاں عائد کی ہیں۔
‘’اسلامی علیحدگی پسند‘ کا خطرہ؟
خاص بات یہ ہے کہ جس انداز میں یہ پابندیاں لگائی گئی ہیں وہ بہت خطرناک ہیں۔ اکتوبر 2020 میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون ایک متنازع بل لے کرآئے۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ فرانس میں مقیم تقریباً 60 لاکھ مسلمانوں کی ‘’کاؤنٹر سوسائٹی‘ بنانے کا خدشہ ہے۔ یہ بل ‘’اسلامی علیحدگی پسندی‘کے خطرات پر قابو پانے کے لیے لایا جا رہا ہے۔
ہم فرانس میں ان پابندیوں کو سامراجی سوچ سے جوڑ کر دیکھ سکتے ہیں، جہاں پردے میں رہنے والی خواتین سیاسی ہتھیار بن جاتی ہیں۔ یہ تصور نسلی برتری سے پیدا ہوتا ہے جہاں مسلم خواتین کو ’بچائے جانے‘ کی ضرورت ہے۔ فرانسیسی سامراج ایک طویل عرصے سے اپنی کالونیوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں کو ’بہتر بنانے‘، انھیں ’مہذب‘ بنانے کی وکالت کر رہا تھا۔
حجاب کیا ہے؟ڈر یا دہشت، پہلے طے کریں
لیکن کیا اب یہ پابندیاں کافی ہیں؟ ہندوستان میں اس پورے واقعہ کواسلامی علامتوں کے بارے میں پیدا ہونے والے ڈر سے بھی دیکھا جانا چاہئے۔ 9/11 کے حملوں اور افغانستان پر چڑھائی کے بعد سے امریکی سرکار نے لوگوں میں اسلام کو لے کر الگ ہی ڈر پیدا کیا ۔
چونکہ ایسا کرنا اس کے ہر عمل کو جائز قرار دینے کے لیے ضروری تھا۔ اب کچھ لوگوں کے لیے حجاب ہراساں کئے جانے کا ہتھیار ہے تو دوسروں کے لیے بنیاد پرست اسلام کا خطرہ۔ تو، آخر یہ کیا ہے – ظلم یا خطرہ؟ اس دوران مسلم خواتین پھنس جاتی ہیں۔ مغرب میں حجابی خواتین ایک ’غیر ملکی عنصر‘ ہیں، ’ادر‘ (دوسری)ہیں۔ اور بھارت میں اسی طرح کی سیاست کو بی جے پی فروغ دے رہی ہے ۔
پچھلے آٹھ سالوں کے دوران تمام مسلمانوں کو پاکستان جانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ مبینہ لو جہاد کے حوالے سے نعرے لگائے گئے ہیں۔ انہیں گائے کے قاتل، دہشت گرد بتایا جا رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ وہ لوگ زیادہ بچے پیدا کرکے بھارت پر قبضہ کرنے کامنصوبہ بنا رہے ہیں۔ مندرتوڑکر مسجد بنانےکی بدمعاشی کررہے ہیں۔ تین جملے بول کر اپنی عورتوں کو چھوڑ دیتے ہیں ۔
یعنی مسلمانوں یا اسلام کا یہ خوف جو عوامی مقامات پر پیدا ہوا ہے وہ ہندوستان کی موجودہ سیاست کا اظہار ہے۔ یہ اظہار واضح طور پر کہتا ہے کہ ہم مسلمانوں کو ہندوؤں پر غلبہ حاصل نہیں ہونے دیں گے۔ حجاب ایک ٹیک اوور کی طرح ہو گیا ہے، دیکھیں مسلمان ہر عوامی جگہ پر قابض ہورہے ہیں۔
ان عوامی مقامات پر جو ہندوؤں کی ملکیت ہیں۔ ہندوؤں کو اس ملکیت سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ ان کا علاقہ ہے اور یہاں مسلمان صرف ان کی شرائط پر ہی رہ سکتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ حجاب انہیں ڈراتا ہے۔
ایک مذہب کے لوگوں کو سیاسی طور پر متحرک کرنے کے لیے دوسرے مذہب کے لوگوں سے ڈرایا جا رہا ہے۔ انہیں سمجھایا جا رہا ہے کہ اگر وہ متحد نہ ہوئے تو فنا ہو جائیں گے۔ فلسطینی ثقافتی نظریہ نگار ایڈورڈ ڈبلیو سیڈ، جسے ادیگرنگ بھی کہا جاتا ہے۔ادیگرنگ یعنی مذہب، جنس ، سماجی واقتصادی حیثیت کی وجہ سے لوگوںکےساتھ متعصب ہونا ۔
برقع کو رجعت پسند کیوں کہا جائے ؟
حجاب یا برقع پہننے یا نہ پہننے پر ایک طویل تنازع چل رہا ہے۔ امریکی ماہر بشریات اور حقوق نسواں حنا پاپانیک نے کئی سال پہلے ’’پورٹ ایبل سیکلوجن ‘ کہا تھا ، سیکلوجن یعنی تنہائی ، ان کی بعد کی نسل کی ماہر بشریات لیلا ابو لغوداس کی وضاحت اس طرح کرتی ہیں کہ برقع دراصل ایک موبائل ہومس کی طرح کام کرتا ہے۔ وہ خواتین کو عوامی مقامات اور اجنبیوں کے درمیان آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اس کے علاوہ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے عورتوں کی ایجنسی ختم ہوتی ہیں۔ دراصل ایجنسی، پسند اورشخصیت جیسے الفاظ کے معنی بھی ہر سماج میں الگ الگ ہوتےہیں۔ ہر سماج کا اپنا طور طریقہ ہوتاہے۔ ہرطور طریقے پر سوال کھڑے کرنےسے پہلےیہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس کی مخالفت کہاں سے کی جارہی ہے۔ عورتیں خود اس کی مخالفت کررہی ہیں یا ان کی جگہ مرد ہی فیصلہ کررہے ہیں ۔
لیلا ابو لغود کا سوال یہ بھی ہے کہ خواتین کو ہمیشہ پردہ داری میں رکھا نہیں جاتا۔ حالیہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ خواتین کو زبردستی بے نقاب کیا گیا ہے۔
شام کے مشہور شاعر محزہ کہف نے اپنے مضمون ‘’فرام ہیر رائل باڈی دی راب ویج رمیوڈ‘ میں بتایا ہے کہ کیسے بیسویں صدی میں سرکاروں نے ترکی، شام اورایران جیسے ممالک میں جدیدیت کےنام پر عورتوںکو بے عزت کیا۔ انہیں عوام میں پردے میں نہ ہونے پر سزا دینے کے بجائے اس کی بات کی سزا دی کہ انہوں نے پردہ کیاہوا ہے۔
خواتین کو بندوق کی نوک پر بے نقاب کیا گیا تاکہ حکومت خود کو ترقی پسند اور سیکولر قرار دے سکے۔ یعنی حجاب یا برقع پہننا یا نہ پہننا، دونوں صورتوں میں خواتین سیاسی ہتھیار بن گئیں۔ خواتین کی خود کو منتخب کرنے کی آزادی خطرے میںپڑ گئی۔
جیسا کہ کہف لکھتا ہے کہ پردے کی موجودگی عورت کی طاقت نہیں چھینتی اور نہ ہی اس کی غیر موجودگی اس طاقت کو چھینتی ہے۔ یہ طاقت اس بات سے ملتی ہے کہ انہیں معاشی، سیاسی اور خاندانی حقوق مل گئے ہیں۔ یعنی حجاب یا برقع اپنے آپ میں خواتین پر ظلم نہیں ہے بلکہ ظلم خواتین کو سماجی، سیاسی اور معاشی اداروں سے دور رکھنا ہے۔ یعنی انہیں اسکولوں میں پڑھنے یا تنہائی میں پڑھانے نہ دے کر ان کی طاقت، ایجنسی چھین لی جا رہی ہے۔ ورنہ یہ ایک طویل سازش کا حصہ ہے، جو مسلسل یہ فیصلہ کر رہی ہے کہ میری پلیٹ میں کیا پیش کیا جائے گا؟میری الماری میں کون سی کتاب ہوگی؟میرے جسم پر کپڑے کیا ہوں گے۔
(بشکریہ : دی کوئنٹ ہندی)