(نوٹ :یہ مضمون بتاتا ہے کہ ہندو بودھ جین وغیرہ مندروں کو لوٹنے، مسمار کرنے کی کہانی و روایت بہت پرانی ہے، خود ہندو حکمرانوں نے یہ کام کیا ہے ۔ اس کامقصد لوٹ مار کے ساتھ طاقت کا مظاہرہ اور فریق پر غلبہ و تسلط کا اظہار تھا، مگر ساری سو ئی مغلیہ عہد پر اٹکی ہے کیونکہ اس سے ہندومسلم نفرت کو بڑھاوا دینے کے ایجنڈے کو ہوا ملتی ہی ، اس مضمون کے مندرجات سے اتفاق ضروری نہیں ۔البتہ آنکھوں پر پڑے پردے ہٹانے میں ضرور مدد کرتا ہے )
تحریر: آدتیہ دویدی
کاشی کی گیان واپی اور متھرا کی عیدگاہ مسجد ایک بار پھر تنازع میں ہیں۔ ہندو فریق کے دعوے وہی ہیں جو ایودھیا میں کیے گئے تھے۔ یعنی ہندو مندروں کو تباہ کر کے مسلمان حملہ آوروں نے یہ مساجد تعمیر کی ہیں اور اس تاریخی غلطی کو ہر قیمت پر سدھارنا ہو گا۔
آج ہم بھارت میں مذہبی مقامات پر حملے کی مکمل کہانی جانیں گے۔ آئیے وہاں سے شروع کریں، جب ہندو مذہب میں مندر نہیں تھے۔
ہڑپا دور کے شہروں میں کسی مندر کے ثبوت نہیں ملتے ۔ اس وقت کے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ پیڑوں کی پوجا کرتے تھے ۔
سب سے پرانے وید میں بھی کسی مندر کا ذکر نہیں ملتا۔ وید کے منتر سورج، آسمان اور پیڑوں جیسے دیوتاؤں کی تعریف کرتے ہیں۔ جن کے مندر نہیں بنائے گئے ۔ اس دور میں صرف یگیہ کی روایت تھی۔
قریب 1000 سے 500 عیسوی پہلے پران وجود میں آئے۔ جن میں برہما، وشنو اور شیو جیسے دیوتاؤں اور ان کی دیویوں کے بارے میں لکھا گیا۔
تقریباً 700 سے 500 عیسوی پہلے بھارت میں بودھ اور جین مذہب کی شروعات ہوئی ۔ بودھ اور جینیوں نے اپنے مبلغین کی یاد میں ٹیلے بنائے ۔
کئی اسکالرس کا ماننا ہے کہ یہیں سے ہندوؤں کو مندر بنانے کا شوق پیدا ہوا۔
مندروں کی شروعات اور توسیع
بھارت میں پوجا استھل کی شکل میں مندر بنانے کا سلسلہ کب شروع ہوا اور اس وقت مندر کا استعمال کیا تھا۔ اس کا صحیح جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔
تاریخ کار نریندسی چودھری کے مطابق سب سے پرانا ڈھانچہجو مورتی پوجا کا اشارہ دیتا ہے ، و ہ 400-500عیسوی کا ہے ۔
دیودت پٹنایک کا ماننا ہے کہ بڑے کسانوں اور مقامی طبقے نے سب سے پہلے مندروں کی تعمیر کیا اور براہمنوں کے ذریعہ ان کے رکھ رکھاؤ کے لئے زمین الگ کردی۔
تاریخ دان منو وی دیودیون کے مطابق 700 عیسوی میں کانچی پورم کے پلو، بادامی کے چالوکیہ ار دیگر راج شہری ریاستوں نے مندر تعمیر کو بڑھا دینا شروع کیا۔
ان کے مطابق 1000 سے 1200 عیسوی میں بھارت میں مندر کی لہر چلی۔ اس دوران ایک بھی شہر یا قصبہ نہیں تھا۔ جہاں ایک یا اس سے زیاد ہ مندر نہ رہے ہوں گے ۔
ہندو مورتیوں کو لوٹنے کی کہانی
معروف ومشہور رچرڈ ایٹن اور پروفیسر رچرڈ ایچ ڈیوس اپنی تحریوں میں جین اور بودھ تیرتھ مقامات کے علاوہ ہندو مندروں کو تباہ کرنے اور مورتیووں کو لوٹنے کے کئی واقعات کا ذکر تے ہیں ۔ یہ کام ہندو راجاؤں نے کیا ۔
ساتویں صدی میں ہندو پلوراجا نرسنگھ ورمن اول نے چالوکیہ سمراج کی راجدھانی واتاپی سے گنیش کی ایک مورتی کو لوٹ لیا تھا۔
50 سال بعد ہندو چالوکی سینا ہندو مندروں سے لوٹی گئی گنگا اورجمنا کی مورتیاں اپنے ساتھ لے آئی۔
آٹھویں صدی میں بنگالی ہندو سینا نے کشمیر کے ہندو راجہ للتادتیہ سے جڑی وشنو کی ایک مورتی کو تباہ کردیا تھا۔
دسویں صدی میں ہندو پرتہار راجہ ہرمبپا ل نے کانگاڑ کےہندو شہری راجہ کو ہرایا اور کانگاڑ شاہی مندر سے وشنو کی سینا کی مورتی لوٹ لی۔
11 ویں صدی میں چول حکمران راجندر ال نے اپنی راجدھانی کو ہندو دیوی – دیوتاؤں کی مورتیوں سے سجایا ۔ ان میں چالوکیہ راجہ سے چھینی گئی درگا اور گنیش کی مورتی، اڑیشہ کے کلنگ سے چھینی گئی بھیور، بھیروی اور کالی کی مورتیاں اور چالوکیہ سے چھینی گئی نندی کی مورتی شامل تھیں۔
ہندو مندروں کے تباہ کرنے کی کہانی
ہندودشمنوں کے مندروں سے مورتیوں کو لوٹنے کے علاوہ، کئی ہندو راجاؤں نے اپنی جیت کا اشارہ دینے کے لئے شکست خورہ راجاؤں کے شاہی مندروں کو تباہ کردیا ۔
10 ویں صدی میں راشٹرکوٹ کے راجہ اندر ثالت نے کلپا میں کلاپریہ کے مندر کو توڑ دیا۔ اس مندر کی سرپرستی پرتہار راجہ کرتے تھے۔
اسی طرح اڑیشہ میں سوریہ ونشی گج پتی ونش کے بانی کپلیند ر نے تامل دیش میں اپنی فوجی مہم کے دوران کئی ہندومندروں کو لوٹ لیا۔
پروفیسر رچرڈ ڈیوس کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرون وسطی کے ہندوو راجاؤں نے اکثر مذہبی تشبیہات کو تباہ کیا ۔ تب مسلم اورترک بھارت میں آئے بھی نہیں تھے ۔
جب ایک راجہ دوسرے راجہ کے مندر یا مورتیوں کو لوٹتا یا تباہ کرتا تھا ، تو اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ مکمل فتح حاصل کرنا تھا۔
تاریخ داں ہربنس مکھیا کے مطابق ’سوال پوچھے جاتے تھے کہ آپ کیسے راجہ ہیں، جو اپنے مندر ک نہیں بچا سکے۔ مندروں پر حملے کی ایک اور وجہ ان میں پایا جانے والا سونا، ہیرے اور جواہرات ہوتے تھے ۔
بودھ تیرتھ استھل کےتباہ ہونے کی کہانی
کئی تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ ہندو راجاؤں نے ہزاروں بودھ تیرتھ استھل پر حملے کئے۔ برہمنوں نے ہندو دھرم کے دشمن کے نام پر بودھ تیرتھ کو مندروں میں بدل دیا۔
ہندوؤں نے بودھ استھل کو اپنا بنایا ان میں سب سے اہم پوری میں جگناتھ مندر ہے۔
سوامی وویکانند کے مطابق جگناتھ کامندر ایک پورانا بودھ مندر ہے ۔ ہم نے اسے اور دیگر کو لے کر پھر سے ہندو کرن کردیا۔ ہمیں ابھی بھی ایسے ہی بہت کچھ کرنا ہوگا۔
تاریخ داں ڈی این جھا اپنی کتاب ’ اگیسنٹ دی گرین -نوٹس آن آئڈینٹی اینڈ مڈول پاسٹ ‘
میں لکھتے ہیں کہ برہمن حکمران پشیا متر بودھوں کو تباہ کرنے والے تھے۔ کہاجا تا ہے کہ اس نے ایک بڑی فوج کے ساتھ بودھ کے استھلوں کو تباہ کرتے ہوئے ،مٹھ کو جلاتے ہوئے اور بھکشوں کو مارتےہوئے سکل تک مارچ کیا، ج سے اب سیالکوٹ کہتے ہیں ۔
تاریخ داں رومیلا تھاپر نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ہندو حکمران پشیا متر شونگ نے اشوک مہان کے بنائے 84 ہزار بودھ استھل کو تباہ کردیا۔
کئی تاریخ داں ڈی این جھا اور رومیلا تھاپر دونوں کے دعوؤں کو ایک طرفہ مانتے ہیں اور اس کی صداقت پر سوال کھڑے کرتے ہیں ۔
References:-
- Essays on Islam and Indian History by Historian Richard Eaton
- Essays of Proff Richard H. Davis, Professor of Religion and Asian Studies, Bard College.
- “The Sages of India” in The Complete Works of Swami Vivekananda, Vol. 3, Advaita Ashram, Calcutta
- "Against the Grain: Notes on Identity, Intolerance and History” by DN Jha
- Romila Thaper, Ashoka and Decline of Mauryas, London, 1961
- ”Hindu Temples: What Happened to them” by Arun Shourie and Others
- https://www.thehindu.com/society/history-and-culture/the-temple-was-not-a-vedic-institution-manu-v-devadevan/article26149218.ece
- https://timesofindia.indiatimes.com/india/what-was-hinduism-like-before-temples/articleshow/84473031.cms
- www.worldhistory.org
- www.learnreligions.com
(بشکریہ: دینک بھاسکر )