(خاص رپورٹ)
ملک بھر میں اپنی پارٹی کو پھیلانے کی مہم میں ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی نے دہلی میں پائوں جمانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اور ضمنی انتخابات میں مسلم اکثریتی علاقہ چوہان بانگر میں عام آدمی پارٹی کی بدترین شکست نے ان کے حوصلہ کو بڑھادیا ہے کیونکہ اس اسمبلی سیٹ کے نتیجہ نے ’آپ‘ سے مسلمانوں کی ناراضگی کا واضح سگنل دیا ہے اور شاید وزیراعلی کجریوال نے بھی بھانپ لیا ہے اس لئے ان کی پارٹی نے بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لئے اسی کی لائن پر چلنے کا فیصلہ پہلے ہی کرلیاتھا اور ہندوتو کی باگ تھام لی تھی۔ ’ہنومان بھکت‘ ہندوتو کے نئے اوتار کجریوال نے رام راجیہ کا خواب دیکھنے کے ساتھ اجودھیا میں زیرتعمیر رام مندر کے دہلی کے بزرگوں کو مفت درشن کرانے کے اعلان پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ دہلی کو ’دیش بھکت‘ بنانے کی خاطر پورا روڈ میپ بھی بنالیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک وقت ایسا رہا ہے کہ’آپ‘مسلمانوں کی پہلی پسند بن گئی تھی‘مگر دہلی فساد میں دہلی سرکار کے رول نے ان کے کان کھڑے کردیئے اور دوریاں بڑھنے لگیں۔اوکھلا سے ممبر اسمبلی عام آدمی پارٹی کے اکلوتے دبنگ مسلم لیڈرامانت اللہ کو اچانک وقف بورڈ سے برطرف کرنا جو دہلی فسادزدگان کی ہر طرح سے کھل کر مدد کر رہے تھے‘ ان کو سائڈ لائن کردینے کے اشاروں نے اس دوری کو بڑھانے میں مدد کی ہے۔
اگرچہ اتحادالمسلمین دہلی کے بعض پاکٹ میں موجود تو تھی پر اس کی سرگرمیاں بہت محدود تھیں اب اویسی نے ہوٹل بزنس مین اور تعلیمی محاذ پر بھی سرگرم کلیم الحفیظ کو دہلی کی کمان سونپ کر ارادے واضح کردئیے ہیں اس سے کجریوال کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں اور عرف عام میں بی جے پی کو بالواسطہ طور پر فائدہ وگا۔ بتایاجاتا ہے کہ اویسی نے ایک ہفتہ تک دہلی میں ڈیرا ڈلا‘ کانگریس کےایک سابق وزیراورسابق مسلم ممبر اسمبلی سے گفتگو کی ۔ذرائع کے مطابق شعیب اقبال کو لانے کی کوشش کی لیکن بات نہیں بنی وہ عام آدمی پارٹی سے ایم ایل اے ہیں۔
سیاسی عزائم رکھنے والےکلیم الحفیظ کتنے کارآمد ہوں گے یہ آنے والا وقت بتائے گا ان کے عام آدمی پارٹی قیادت سے خوشگوارمراسم رہے ہیں۔ان کے قریبی ذرائع کے مطابق انہوں نے دہلی اقلیتی کمیشن کا چیئرمین بننے کے لئے بھی لابنگ کی مگر کامیاب نہیں ہوئے۔گذشتہ کچھ عرصہ سے کوئی مضبوط فیلڈ ڈھونڈ رہے تھے آخر کار ایم آئی ایم کا دامن تھاما‘اس کے لئے کرناٹک اور حیدرآباد کے سیاسی روابط بہت کام آئے اور اویسی نے انہیں کمان سونپ دی۔اب دہلی میں بھی کھیلا ہوبے۔ دہلی نگر نگم کے الیکشن نزدیک ہیں تینوں نگر نگم کی 278سیٹوں میں صرف14مسلمان کونسلر ہیں۔ جبکہ دہلی کی آبادی میں13فیصد مسلم ہیں۔ اس کے حساب 35سے40تعداد ہونی چاہئے۔اویسی کا پہلانشانہ نگر نگم کے الیکشن ہیں‘ کئی ریاستوں میں یہ تجربہ کامیاب رہا جن میں مودی کا گجرات بھی ہے۔ ’آپ‘ اس بار کارپوریشنوں پر قبضہ کرناچاہتی ہے ۔عام خیال ہے کہ اویسی کھیل بگاڑ سکتے ہیں ان پرسیکولرووٹوں کی تقسیم سے بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ ساکشی مہاراج اس کادعویٰ کرتے ہیں کہ اویسی دوست ہیں۔بہرحال اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اویسی میں دم ہے اور اپیلنگ کا مادہ بھی۔نوجوان ان سے بہت متاثر ہیں۔ یہ کارڈ یہاں چلے گا یا نہیں بہت کچھ کلیم الحفیظ پر بھی منحصر ہے‘جن پر اویسی نے دائو لگایا ہے۔