تحریر:مولانا عبد الحمید نعمانی
امت مسلمہ کی اسلام سے وابستگی کے حوالے سے معاملہ کچھ ایسا رہا ہے کہ بھگت اور بھگوان کے درمیان بہ قول ڈاکٹر کرشنن مادی لین دین کا رشتہ دیکھنے والے اور مادہ پرست عناصر آج تک نہیں سمجھ سکے ہیں ، انھوں نے مٹانے کے ہزار جتن کیے لیکن ادھر ڈوبے ،ادھر نکلے کے سلسلے پر روک لگانے میں ناکام رہے ہیں ، گھور تاریکی میں چاند کی چمک مزید اور بڑھ جاتی ہے ، امام شاہ ولی اللہ ؒ اسی راجدھانی دہلی میں تھے ، مغلیہ حکومت پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھی ، اس کے باوجود چاروں طرف سے یلغاروں سے ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں ، ان سے بھی خراب اور دیگر گوں تھے ، حضرت شاہ صاحب ؒ نے اپنے دور کے حالات پر اپنے ایک عربی شعر میں اس طرح روشنی ڈالی ہے ۔
کان نجوماً او مضت فی الغیاھب
عیون الافاعی اورئوس العقارب
یعنی تاریکیوں میں جو ستارے چمک رہے ہیں ،وہ ناگوں کی آنکھیں ہیں یا بچھوؤ ں کے سرہیں؟
بعد کے دنوں میں جاری سلسلے پر شبلیؒ (وفات1914)نے سوالیہ انداز میں تبصرہ کیا تھا کہ
بنے رہوگے تم اس ملک میں میاں کب تک؟
اس کاسیدھا جواب ہے کہ ہم بھارت میں اب(2022) تک بنے ہوئے ہیں، جب امام شاہ ولی اللہ ؒبارہ برس کی درس و تدریس کے بعد مزیدرہنمائی ، روشنی اور فیوض و برکات کے حصو ل کے لیے حرمین شریفین گئے تھے تو احباب نے ان کو مشورہ دیا کہ مقام امن و سکون سے قتل و غارت گری کے مقام ہندستان واپس نہ آئیں تو امام شاہ ولی اللہ ؒ نے جواب دیا کہ یہ ارادہ کہ وطن واپس اب نہ ہونا چاہیے ، تو اس پر اصرار نہ کرو، جب تک کہ اللہ تمہارا سینہ میرے لیے اور میرا سینہ تمہارے لیے نہ کھول دے ۔
(حیات ولی صفحہ 29از مولانا رحیم بخش دہلوی ؒ)
انھوں نے انتہائی مایوس کن اور مخدوش حالات میں مکمل ایمان وایقان کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ مجھے اس کا یقین ہے کہ اگر مثلاً ہندوؤں کا اقلیم ہند پر تسلط قائم ہوجائے اور یہ تسلط ہر اعتبار سے مستحکم ہو جائے تب بھی اللہ تعالی کی حکمت سے یہ واجب ہے کہ ہندوؤں کے لیڈروں کے دل میں الہام کرے کہ وہ دین اسلام کو اپنا مذہب بنا لیں ۔
واللذی اعتقدہ انہ ان اتفق غلبة الھنود مثلا علی اقلیم الھند غلبة مستقرة عامة وجب فی حکمة اللہ ان یلھم رو ساہم التدین بدین الاسلام ( التفھیمات الالھیہ جلد اول صفحہ203،مطبوعہ مجلس علمی ڈابھیل گجرات، 1936)
حضرت شاہ صاحب ؒ کے اس یقین و امید کی بنیاد ، دین اسلام کا فطری دین اور ہر طرح سے مکمل و محفوظ اور ساتھ ہی امت مسلمہ کا داعی الی البخیر ہونا ہے ۔ اس کے لیے دھمکی اور زبردستی کی ضرورت ہی نہیں ہے ، کسی بھی گروہ کا باطل اور جھوٹ پر ہونے کی سب سے بڑی دلیل اس کا اس کی طرف زور زبردستی ، دھمکی اور اپنے اصل نظریہ حیات کو اصل شکل میں کسی خوف و کمزوری کے سبب پیش نہ کرنا ہے ، ڈر کی سیاست کے استعمال کا مطلب صاف ہے کہ متعلقہ گروہ کے پاس، انسانی معاشرے کے سامنے پیش کرنے کے لائق کوئی چیز نہیں ہے ، اپنے پاس کے سچ کو سامنے رکھنے کے بجائے اقتدار کی پشت پناہی میں اکثریت کی نسل پرستی اور نفرت و تفریق پر مبنی نظام حیات کو دیگر باشندوں پر لادنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ صدق و صالحیت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے ، قبول حق کے نتیجے میں نجات اور خود کی تکمیل کا تعلق ، پوری طرح دل کی آمادگی کے ساتھ اسے قبول کرنے سے ہے اور ایسا کوئی عقیدہ و نظام حیات،ہندوتو وادی ، انسانی سماج کو دینے کی پوزیشن میں سرے سے نہیں ہیں، گزشتہ دنوں سنگھ اور اس کی معاون تنظیم وشو ہندو پریشد نے گھر واپسی کی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے ، سنگھ سربراہ ڈاکٹر موہن راؤ بھاگوت نے بھی ایک پروگرام کے شرکاءو حاضرین سے حلف لیا کہ وہ گھر واپسی کے لیے کام کریں گے ،لیکن اس کا جواب کسی نے نہیں دیا ہے کہ گھر کہاں ہے اور واپسی کا راستہ کیا ہے؟چتر کوٹ میں بھاگوت نے کہا کہ ہندوؤں کو اپنی انا اور خود غرضی کو پیچھے چھوڑ کر کام کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ہی انھوں نے ہندو دھر م چھوڑ کر دیگر مذاہب میں گئے لوگوں کی گھر واپسی کی اپیل بھی کی ، ساتھ ہی انھوں نے موجود تمام لوگوں کو حلف دلایا کہ وہ ان لوگوں کی گھر واپسی کے لیے کام کریں جو ہند و دھرم چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کر چکے ہیں ، شرکاءنے حلف لیتے ہوئے عہد کیا ۔
’’جو بھائی دھرم چھوڑ کر چلے گئے ہیں ان کی بھی گھر واپسی کے لیے کام کروں گا۔ انھیں پریوار کا حصہ بناؤں گا۔‘‘(اے این آئی نیوز ایجنسی ، 15دسمبر2021ء )سنگھ کی معاون تنظیم وشو ہندو پریشد نے(24دسمبر 2021ءدینک جاگرن،پانچ جنیہ)احمدآباد کے سہ روزہ اجلاس میں مسلمانوں وغیرہ کی گھر واپسی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے ، اس خبر کو سنگھ کے ہندی ترجمان پانچ جنیہ کے سائٹ پر نمایاں طور سے شائع کیا گیا ہے ، ابھی چند دنوں پہلے (25دسمبر 2021ء)بی ، جے پی کے تیز طرار لیڈر تیجسوی سوریہ نے کہا کہ گھر واپسی کو ترجیح دینی ہوگی ،اس سلسلے میں مٹھوں، مندروں کو قیادت کرنی چاہیے ۔
ہماری سنگھ اور بی ،جے پی کے کئی لیڈروں اور ترجمانوں سے ملاقاتیں اور باتیں ہوتی رہی ہیں ،زبانی اور ٹی وی چینلز پر بھی۔ گھر واپسی کے سوال پر وہ اس کا جواب نہیں دیتے ہیں اور حال فی الحال بھی نہیں دیا ہے کہ ہندو تو وادی سماج کے پاس گھر میں جگہ کب تھی اور گھر بھی کہاں تھا کہ جس میں جسم و روح کے اعتبار سے صحت مند افراد رہ پاتے ۔ بنیادی سوال تو یہ ہے کہ گھر سے لوگ نکل کر اسلام کے گھر میں کیوں داخل ہوئے ، اگر گھر اور اس میں رہنے کی جگہ کا انتظام ہوتا تو لوگ اس سے نکلتے ہی کیوں؟اور آج بھی گھر اور اس میں جگہ کہاں ہے؟۔آخر اسلام کی خوبیوں سے سوا ہندو تو اور برہمن وادی عقیدہ و عمل میں زائد کیا کچھ ہے ، جسے اپنانے کے لیے گھر واپسی لازمی ہے؟۔ہندوتو کی پوری روایت میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح واضح فکرو عمل والا کوئی آدرش اور نمونے کی ایسی شخصیت نہیں ہے ، جسے مکمل نمونہ کے طور پر دیکھا جائے ،اسلام کے پاس خلفاءاربعہ ،ابو بکر ، عمر ، عثمان ،علی رضی اللہ عنہم کی مثال سلسلہ زریں ہے ، ہندوتو کے پاس حضرت عبد اللہ بن مسعود ،ابن عباس ؓ کی طرح صاحب تفسیروفقہ بھی نہیں ہیں، ائمہ اربعہ ،امام ابو حنیفہؒ، امام مالک ؒ،امام شافعیؒ،اما م احمد بن حنبل ؒ،امام جعفر صادق ؒ کی طرح مجتھدین سے اوراق تاریخ روایت خالی ہیں ، ائمہ حدیث ،امام بخاری ،مسلم،ابو داؤد،ترمذی،نسائی ،ابن ماجہ ،امام محمد ابو یوسف،رہ نما رجال بھی نہیں ہیں ، منظور شدہ ، قرآن،بخاری ، ہدایہ ، شامی ، فقہ الحدیث ، المنفی ،الفقہ علی مذاہب الاربعہ جیسی قابل استفادہ کتب بھی نہیں ہیں ۔ آخر واضح صراط مستقیم کو چھوڑ کر کوئی سمجھ دار آدمی، اوبڑ کھا بڑ راستے سے بہ قول پنڈت نہرو ،ہندوتو کے ایسے تاریک جنگل میں کیوں جائے گا جہاں لکڑی ،سانپ کا پتا اور فرق نہیں چلتا ہے ، دین اور دھرم کا معاملہ دل اور صحیح دھیان کا ہے ، اس میں دھمکی اور دھونس ،دھاندھلی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ، صرف گھر کی بات کرنے سے بات نہیں بن سکتی ہے ۔ اس میں سامان راحت و تسکین اور روشنی بھی ہونا چاہیے ، زمانے کے حال اور مستقبل کی طرف تو اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، باقی تو ماضی کی طرف ہیں ،معکوس سفر سے منزل تک رسائی نہیں ہوسکتی ہے ۔
email: [email protected]
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)