پرانے ایکٹ کو وقف ایکٹ، 1995 کے نام سے جانا جاتا تھا، جب کہ نئے قانون کو یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ ایمپاورمنٹ ایفیشینسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ، 2025 کا نام دیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وقف ایکٹ، 1995 کے تحت، وقف کی تشکیل کا اعلان یوزرس یا اینڈومنٹ (وقف الاولاد) کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی نئے بل میں وقف باے یوزرس کو ہٹا دیا گیا ہے اور اینڈومنٹ کے ذریعے اس کے قیام کا اعلان کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ضروری شرط رکھی گءی ہے کہ عطیہ دینے والے کو اسلام قبول کرے کم از کم پانچ سال کا وقفہ گزرنا چاہیے اور جائیداد کا مالک ہونا چاہیے۔ وقف الاولاد خواتین کے وارثوں کو وراثت کے حق سے محروم نہیں کر سکتا۔
سرکاری املاک بطور وقف:
مرکز کے مطابق، 1995 کے وقف ایکٹ میں اس بارے میں کوئی واضح انتظام نہیں ہے، جب کہ نئے قانون میں، وقف کے طور پر شناخت کی گئی کوئی بھی سرکاری جائیداد وقف نہیں ہوگی۔ نیز، ملکیت سے متعلق تنازعات کو کلکٹر حل کرے گا، جو ریاستی حکومت کو رپورٹ پیش کرے گا۔
وقف جائیداد کے تعین کا اختیار:
پرانے قانون میں وقف بورڈ کو وقف املاک کی چھان بین اور تعین کرنے کا حق تھا، جب کہ وقف ترمیمی قانون 2025 میں اس شق کو ہٹا دیا گیا ہے۔
وقف کا سروے:
قبل ازیں، سروے کمیشن اور ایڈیشنل کمشنروں کو وقف سروے کے لیے مقرر کیا گیا تھا، لیکن نیا قانون کلکٹروں کو سروے کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ زیر التواء سروے کو ریاست کے ریونیو قوانین کے مطابق کرانے کا بھی حکم دیتا ہے۔
سنٹرل وقف کونسل کی تشکیل:
حکومت کے مطابق، مرکزی وقف کونسل کی تشکیل وقف ایکٹ کے تحت مرکزی اور ریاستی حکومتوں اور وقف بورڈ کو مشورہ دینے کے لیے کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ شرط بھی تھی کہ کونسل کے تمام ممبران مسلمان ہوں جن میں کم از کم دو خواتین ممبران شامل ہوں۔
نئے وقف قانون کے مطابق سینٹرل وقف کونسل کے دو ارکان غیر مسلم ہونے چاہئیں۔ ایکٹ کے مطابق ارکان پارلیمنٹ، سابق ججز اور کونسل میں مقرر ہونے والے نامور افراد کا مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس میں مسلم تنظیموں کے نمائندے، اسلامی قانون کے اسکالرز، وقف بورڈ کے چیئرمین اور کونسل کے دو مسلم ارکان خواتین ہونے چاہئیں۔
وقف بورڈ کا ڈھانچہ:
وقف ایکٹ کے تحت ہر ریاستی بورڈ میں مسلم الیکٹورل کالج سے زیادہ سے زیادہ دو ارکان کے انتخاب کا انتظام ہے۔ اس میں رکن پارلیمنٹ، ایم ایل اے، قانون ساز کونسل کے ممبران، بار کونسل ممبران شامل ہیں اور کم از کم دو ممبران خواتین ہونی چاہئیں۔
نیا وقف ترمیمی قانون 2025 ریاستی حکومت کو بورڈ میں کسی شخص کو نامزد کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ ان کے مسلمان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بورڈ میں دو غیر مسلم ارکان، کم از کم ایک رکن شیعہ، سنی اور پسماندہ مسلم طبقات سے، ایک ایک رکن بوہرہ اور آغاخانی برادریوں سے (اگر ریاست میں وقف ہے) اور دو مسلم ارکان جو خواتین ہوں۔
ٹربیونل کی تشکیل:
وقف تنازعات کے لیے ایک ریاستی سطح کے ٹریبونل کی بات ہے جس کی سربراہی ایک جج (کلاس-I، ضلع، سیشن یا سول جج)، اور ایک ریاستی افسر (اضافی ضلع مجسٹریٹ کے عہدے کا) اور ایک مسلم قانون ماہر پر مشتمل ہو گی۔
وقف ترمیمی قانون 2025 نے مسلم قانون کے ماہر کو ہٹا دیا ہے اور اس کی جگہ ایک موجودہ یا سابق ضلع جج کو بطور چیئرمین اور ریاستی حکومت کے موجودہ یا سابق جوائنٹ سکریٹری کو بطور چیئرمین شامل کیا ہے۔
ٹربیونل کے حکم کے خلاف اپیل:
وقف ایکٹ کے تحت ٹریبونل کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں اور اس کے فیصلوں کے خلاف عدالت میں اپیل کرنا ممنوع ہے۔ خصوصی حالات میں کیس میں صرف ہائی کورٹ ہی مداخلت کر سکتی ہے، جبکہ نئے قانون میں ٹریبونل کے فیصلوں کو حتمی بنانے کی شقوں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ہائی کورٹ میں اپیل کی 90 دن کے اندر اجازت دی گئی ہے۔
مرکزی حکومت کے اختیارات:
1995 کے وقف ایکٹ کے تحت ریاستی حکومتیں کسی بھی وقت وقف کھاتوں کا آڈٹ کر سکتی ہیں۔ جب کہ نیا قانون مرکزی حکومت کو وقف کے رجسٹریشن، کھاتوں کی اشاعت اور وقف بورڈ کی کارروائیوں کی اشاعت سے متعلق قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے۔ یہ بل مرکزی حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) یا کسی بھی نامزد افسر سے ان کا آڈٹ کرائے۔
مختلف کمیونٹیز کے لیے الگ وقف بورڈ:
وقف ایکٹ 1995 کے مطابق، اگر ریاست میں تمام وقف املاک یا وقف آمدنی میں شیعہ وقف کا حصہ 15 فیصد سے زیادہ ہے، تو سنی اور شیعہ فرقوں کے لیے الگ الگ وقف بورڈ بنائے جائیں گے، جب کہ نیا وقف ترمیمی قانون شیعہ اور سنی فرقوں کے ساتھ ساتھ بوہرا فرقوں کے لیے الگ الگ وقف بورڈ کی اجازت دیتا ہے۔