تحریر:شکیل اختر
ملبوسات بنانے والی مقبول کمپنی فیب انڈیا نے ’جشن رواج‘ نام کا اپنا ایک اشتہار منگل کو معذرت کے ساتھ واپس لے لیا۔ کئی سرکردہ ہندو تنظیموں اور بی جے پی کے رہنماؤں نے اس اشتہار پر یہ کہہ کر اعتراض کیا تھا کہ ہندوؤں کے تہوار دیوالی کے لیے بنایا گیا یہ اشتہار ہندو مخالف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیب انڈیا کمپنی ہندوؤں کے تہوار دیوالی کو ’مسلیمائز‘ کرنے یا مسلم رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما تیجسوی سوریہ نے ایک ٹویٹ میں کہا ’دیوالی جشن رواج نہیں ہے۔ یہ ہندو تہوار کو دانستہ طور پر ایببراہیمائز یعنی مسلم رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
بی جے پی کے ایک دیگر رہنما کپل مشرا نے کہا کہ ’فیب انڈیا کا سامان مت خریدیے۔‘ کئی دیگر ہندو تنظیموں اور رہنماؤں نے بھی فیب انڈیا کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ سوشل میڈیا پر ’بائیکاٹ فیب انڈیا‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا۔
سرکردہ پبلک ریلیشنز کمپنی ’پرفیکٹ ریلیشنز‘ کے بانی اور ایڈگرو دلیپ چیئرمین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا:’ ’فیب انڈیاکا جشن رواج مارکیٹنگ حکمت عملی کا ایک طریقہ تھا۔ اس کام کا مقصد ہندو مذہب کو نقصان پہنچانا تو قطعی نہیں تھا۔ دوسرے ہندو مذہب یا ہمارے تہوار اتنے کمزور اور کھوکھلے نہیں ہیں کہ اسے کوئی نیا نام دیے جانے سے اس پر چوٹ آ جاتی یا کوئی اثر پڑتا۔‘‘
سابق وزیر اور بی جے پی کے رکن پارلیمان اننت کمار ہیگڑے نے ٹائر بنانے والی کمپنی ’سی ایٹ‘ سے کہا ہے کہ وہ فلم اسٹار عامر خان کا اپنا اشتہار واپس لے۔
اس اشتہار میں عامر خان کو یہ پیغام دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ دیوالی پر لوگ پٹاخے نہ پھوڑیں۔ ہیگڑے کا کہنا ہے کہ یہ اشتہار ہندو مخالف ہے۔ انھوں نے کمپنی کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ بالی ووڈ کے ’ہندو مخالف‘ مسلم اداکار ہندو مذہب اور تہواروں کو ہدف بنا رہے ہیں۔ انھوں کہا کہ یہ فلم اسٹارز سڑک پر نماز پڑھنے اور لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی اونچی آواز سے پیدا ہونے والی مشکلات کے بارے میں کبھی کوئی اشتہار نہیں بناتے۔
اس سے پہلے واشنگ پاؤڈر سرف کے ایک اشتہار میں ہولی کے تہوار میں ایک مسلم بچے اور ایک ہندو بچی کو ہولی کھیلتے ہوئے دکھايا گیا تھا۔ اس اشتہار کے خلاف بھی ہندو تنظیموں کی طرف سے شدید احتجاج کیا گیا تھا۔
چند ماہ قبل پہلے ٹاٹا گروپ کی زیورات کی کمپنی تنشک بھی اسی طرح کے ایک اشتہار کے سبب ہندو سخت گیروں کی زد میں آئی تھی۔ ان کمپنیوں کو معذرت کے ساتھ ان اشتہاروں کو واپس لینا پڑا تھا۔
بالی ووڈ کے متعدد فلم اسٹارز اور ہدایت کاروں کو بھی بائیکاٹ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہندو تنظیموں کے حملے کے سبب کئی فلموں میں کہانی اور مناظر تبدیل کرنے پڑے ہیں۔ بیشتر معاملوں میں تنازع کسی مسلم تھیم، یا مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے والے اشتہاروں اور فلموں سے پیدا ہوئے۔ لیکن کچھ عرصے پہلے ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے ملک کی سرکرہ کمپنی انفوسس کو ہدف بنایا تھا۔
آر ایس ایس کے جریدے ’پانچ جنیہ‘ کے اداریے میں انفوسس کو ’ملک دشمن‘ قرار دیا گیا تھا۔ یہ کمپنی حکومت کی وزارت خزانہ کا انکم ٹیکس پورٹل دیکھتی ہے۔ اس میں کچھ خامی تھی جو مقررہ وقت پر دور نہیں ہو سکی تھی۔
آر ایس ایس کے جریدے نے انفوسس پر ملک کی معیشت کو دانستہ طور پر نقصان پہنچانے کا الزام لگایا تھا۔ اس مضمون میں یہ بھی کہا گیا تھا یہ کمپنی ہندو مخالف نکسل نظریات کو فروغ دینے میں مدد کر رہی ہے۔ ملک کے تمام صنعتی ادارے تمام واقعات میں خاموش رہتے ہیں۔
ہندو گروپوں اور تنظیموں کی جانب سے کسی کمپنی، فرد یا صنعتی گروپ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم جلائی جاتی ہے۔ الگ الگ جگہ بیانات دیے جاتے ہیں۔ مظاہرے اور احتجاج کیے جاتے ہیں ۔ دھمکیوں اور کبھی کبھی شو رومز اور سنیما گھروں یا شوٹنگ کے سیٹس پر حملوں سے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ان کے نظریات کے مطابق عمل کیا جائے ورنہ اقتصادی قصان اٹھانے کے تیار رہیں۔ اس طرح کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دلیپ چیرین کا خیال ہے کہ یہ گروپ کمپنیوں پر اس لیے حملے کر رہے ہیں کیوںکہ یہ آسان ہدف ہیں۔ ’آپ کمپنی پر حملہ کریں، بالی وڈ کو نشانہ بنائیں یا کسی کرکٹر پر حملہ کریں یہ تینوں آسان ہدف ہیں۔ ان کو نہ لڑنے کا طریقہ معلوم ہے اور نہ لڑنے کی ہمت ہے۔ یہ سوچتے ہیں جلدی اس مشکل سے نکلو اور اس سے بچو۔‘
ملک کے نامور صحافی اور ’دی پرنٹ‘ پورٹل کے مدیر شیکھر گپتا کا کہنا ہے کہ یہ رحجان اس لیے فروغ پا رہا ہے کیوںکہ کارپوریٹ حملوں سے ڈر جاتے ہیں۔ وہ کسی تنازعے میں ہرگز نہیں پڑنا چاہتے ہیں۔ وہ فوراً ڈر جاتے ہیں اور پیچھے ہٹ جاتے ہیں جس سے حملہ کرنے والے کی ہمت بڑھ جاتی ہے۔‘
شیکھر گپتا نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا ’ آپ دیکھئے سنیما ہال پر حملے ہو جاتے ہیں۔ چار پتھر پھینک دیں تو سب لوگ ڈر جاتے ہیں۔ عامر خان کے برینڈ کا بائیکاٹ کروایا۔ ابھی شاہ رخ کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ یہ منصوبہ بند طریقے سے ہوتا ہے۔ فلم انڈسٹری بہت بااثر ہے۔ اس میں بڑے بڑے سٹارز ہیں، لیڈر ہیں، ان کو کھڑے ہو کر بولنا چاہیے لیکن وہ چونکہ نہیں بولتے۔‘ ’ہر کوئی یہی سوچتا ہے کہ میں نہیں بولوں گا تو بچ جاؤں گا اور پھر یہی ہوتا ہے جب ان کے اوپر مصیبت آتی ہے تو کوئی بولنے والا نہیں ہوتا۔‘
ایڈ گرو دلیپ چیرین کہتے ہیں کہ کئی مطالعوں سے پتہ چلتا ہے سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کے ہیش ٹیگ اور ٹرولز کی مہم سے صارفین پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا اور بالآخر فیصلہ کسی برینڈ کے معیار سے ہی طے ہوتا ہے۔ شیکھر گپتا کا خیال ہے کہ ہندو گروپوں کے حملے میں تیزی کمپنیوں اور بالی وڈ میں ڈر کے علاوہ خطرہ مول نہ لینے کے رحجان سے آئی ہے۔ اس لیے کوئی بھی ان تنظیموں اور حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب تک سب لوگ مل کر نہیں
کھڑے ہوں گے تب تک یہ نہیں بدلے گا۔‘
(بشکریہ :بی بی سی)