تحریر :مولانا پیرصلاح الدین سیفی نقشبندی
میاں کمرے میں ہیں….. سامنے بچے کھیل رہے ہیں….. خاتون گھر میں پوچھا لگارہی ہیںادھرکچن میں دودھ جلنے کی بو آتی ہے…..خاتون دوڑ کر کچن کی طرف جاتی ہیں….اسی لمحے میں گیٹ پرکوئی بیل(Bell) بجاتاہے۔میاں گیٹ کی طرف جانے کےلئے نکلتے ہیں…… اور سامنے رکھی پوچھے کی بالٹی اسے انہیں ٹھوکر لگتی ہے…..اب دو رد عمل ممکن ہیں: مثبت رد عمل….. ؍منفی ردعمل……
مثبت رد عمل:
خاتون جلدی سے آکر پوچھتی ہیں : ’’آپ کو چوٹ تو نہیں لگی؟….. میں جلدی میں بالٹی راستے سے ہٹانابھول گئی؟‘میاں نے کہا:’’نہیں، آپ کی غلطی نہیں ہے… مجھے ہی دیکھ کر چلنا چاہئے تھا… میں نے ہی جلد بازی میں دھیان نہیں دیا۔‘‘
منفی رد عمل:
میاں نے چیخ کرکہا:’یہ کوئی بالٹی رکھنے کی جگہ ہے…. تمہیں کوئی عقل نہیں؟ ‘بیگم بھی چیخ کرکہتی ہیں:’یہاں کچن بھی دیکھوں…. پوچھابھی لگاؤں…. بچے بھی سنبھالوں وغیرہ وغیرہ۔‘ اور جھگڑا شروع ہوجاتاہے۔دونوں جگہ بچے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ایک جگہ وہ مسکرادیں گے…. دوسری جگہ وہ سہم جائیں گے۔مثبت ردعمل سے بچوں نے سیکھا… غلطی مان لو… تاکہ دوہرائی نہ جائے۔منفی ردعمل سے بچوں نے سیکھا… اگر غلطی ہوگئی.. توہماری شامت آجانی ہے۔
ایسے چھوٹےبڑے واقعات ہمارے گھروں میں اور ہماری روز مرہ کی زندگی میں روزانہ ہی رونما ہوتے رہتے ہیں….. اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم انہیں مثبت انداز میں ہینڈل کریں یا منفی انداز میں…. ہمارا مثبت رویہ خوشگوار ماحول اور امن و سکون فراہم کرتاہے…. جبکہ ہمارا منفی رویہ جھگڑا برپاکرکے ماحول کی خرابی اور امن وسکون کو غارت کرنے کا باعث بنتا ہے….. اور ہماری زندگی کو پریشان کن بناتاہے…. ہم اپنی سوچ اور رویے سے اپنے ماحول کو خوشگوار یا بد بودار بناتے ہیں…. ہم اپنے امن و سکون کو خود طے کرتے ہیں۔
’اپنی غلطی کو مان لینا یا…. دوسروں کی غلطی سے درگزر کرنا‘…..دونوں ہی مثبت رویہ اور مومن کی صفات ہیں۔جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے مومن بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:‘‘جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں‘‘۔ (آل عمران134)
اور آپ صل اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’میں جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑے۔‘‘ (سنن ابن داؤد، جلد سوم، ادب کا بیان، حدیث :1396)
جھگڑا امن و سکون کو تباہ کرتاہے… لہٰذا جو بندہ دوسروں کو معاف کرکے یا خود اپنی غلطی کو تسلیم کرکے…. یا پھر خود حق پر رہنے کے باوجود…. اپنا حق صرف اس لئے چھوڑدے کہ جھگڑا نہ ہو….. تو وہ ماحول کو خوشگوار اور پُر امن بناتاہے…. جس کے بدلے میں ایسے بندے کےلئے امن کی جگہ جنت کے اطراف میں ایک گھر کی ضمانت دی گئی ہے۔لہٰذا ہمیں دین کی ان باتوں کو سیکھنا، سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے….. تب ہی ہم مثبت سوچ اور رویے کے ساتھ… اپنے ماحول کو خوشگوار اور اپنی زندگی کو آسان بناسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے (آمین)