تحریر: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
خاندان ، جس کے افراد کے درمیان خوش گوار تعلقات رہنے چاہییں ، مختلف اسباب سے تنازعات و اختلافات کی آماج گاہ بن گیا ہے _ زوجین اور دیگر افرادِ خاندان کے درمیان معمولی معمولی باتوں پر شکایات اور دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں ، جو رفتہ رفتہ اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ بسا اوقات علیٰحدگی کی نوبت آجاتی ہے _ جماعت اسلامی ہند نے اس میقات میں منصوبہ بنایا ہے کہ پورے ملک میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی کونسلنگ کی جائے ، انہیں اسلام کی عائلی تعلیمات اور افرادِ خاندان کے حقوق و فرائض سے روشناس کرایا جائے اور خاندانی مفاہمتی مراکز قائم کیے جائیں ، تاکہ زوجین اور افرادِ خاندان کے درمیان اختلافات پیدا ہونے کے ابتدائی مراحل میں ہی انہیں حل کرنے کی تدابیر کی جاسکیں _ یہ سرگرمیاں شعبۂ اسلامی معاشرہ اور شعبۂ خواتین دونوں کی طرف سے جاری ہیں۔
آج جماعت اسلامی ہند ، اترپردیش مشرق کے شعبۂ خواتین کی جانب سے آن لائن پروگرام منعقد ہوا ، جس میں پورے حلقہ سے اسّی (80) سے زائد خواتین اور طالبات نے شرکت کی _ محترمہ ساجدہ ابواللیث فلاحی سکریٹری شعبۂ خواتین کے افتتاحی کلمات کے بعد 4 شریکات نے افتراق زوجین ، والدین اور اولاد کے درمیان اختلافات ، ساس بہو کے جھگڑے اور لاک ڈاؤن سے پیداشدہ معاشی مسائل پر مختصر اظہارِ خیال کیا _ اس کے بعد محترمہ فاخرہ عتیق (کاؤنسلر ، مرکزی معاون ناظمہ چنئی) نے ‘کاؤنسلنگ:’مفہوم اور اہمیت‘ اور محترمہ خالدہ پروین (کاؤنسلر ، رکن جماعت ، سوشل ایکٹوسٹ ، تلنگانہ) نے ’کاؤنسلنگ اور لاک ڈاؤن میں پیدا ہونے مسائل اور ان کا حل‘ کے عناوین پر تفصیل سے گفتگو کی۔
اس پروگرام میں راقم سطور سے ’کونسلنگ مراکز کے قیام کی ضرورت و افادیت ‘کے عنوان پر اظہارِ خیال کی خواہش کی گئی _ میں نے درج ذیل نکات پر گفتگو کی
(1) نکاح کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ زوجین کو ایک دوسرے سے سکون حاصل ہو اور ان کے درمیان الفت و محبت قائم ہو _ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے ، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی ۔‘(الروم : 21)
(2) اختلافات نہ پیدا ہونے پائیں ، یا اگر پیدا ہوں تو ابتدا ہی میں انہیں حل کرلیا جائے ، اس کے لیے کونسلنگ کی ضرورت پڑتی ہے _ جس طرح کوئی مرض لاحق نہ ہو نے پائے ، اس کے لیے تحفّظی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں اور اگر مرض لاحق ہوجائے تو اس کے لیے علاج معالجہ کروایا جاتا ہے اور دواؤں کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔
(3) کونسلنگ کا تصور قرآن مجید سے ملتا ہے _ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر زوجین کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے تو دونوں کے خاندان والوں کو آگے بڑھ کر اسے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے _ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ اور اگر تم لوگوں کو میاں بیوی کے تعلّقات بگڑجانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرّر کرو _ وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صُورت نکال دے گا _‘‘ (النساء :35)
(4) کونسلنگ خاندان سے باہر کا کوئی فرد بھی کرسکتا ہے _ یہ موجودہ دور کا ایک اہم فن بن گیا ہے _ اختلافات کے حل کے لیے پروفیشنل کونسلر کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
(5) بگڑے تعلقات میں سدھار لانے کی کوشش بڑی مبارک کوشش ہے _ اللہ کے رسولﷺ نے اسے بڑا فضیلت والا کام بتایا ہے _ ایک مرتبہ آپ نے ایک مجلس میں اپنے اصحاب سے دریافت کیا : ’ کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ نماز ، روزہ اور صدقہ سے افضل عمل کیا ہے؟ انھوں نے کہا : ہاں ، کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا : آپسی تعلقات کو سدھارنا ‘ ( ابوداؤد : 4919 ، ترمذی : 2509 ) _
(6)کونسلنگ شادی سے قبل (pre marriage) بھی کی جاتی ہے اور شادی کے بعد (post marriage) بھی _ شادی سے قبل کونسلنگ انفرادی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی بھی _ انفرادی کونسلنگ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام معاملات و مسائل پہلے ہی حل کر لیے جائیں جو شادی کے بعد تنازعہ کا سبب بن سکتے ہیں ، مثلاً لڑکی تعلیم حاصل کررہی ہے تو کیا شادی کے بعد بھی اس کا سلسلہ جاری رہے گا؟ اگر ہاں تو اس کا خرچ کون اٹھائے گا؟ کالج یا یونی ورسٹی جانا ہوگا تو کون اس کے ساتھ جائے گا ؟ لڑکی ملازمت کررہی ہے تو شادی کے بعد ملازمت جاری رہے گی یا نہیں؟ مشاہرہ کی مالک وہ ہوگی یا شوہر یا میکے والے؟ اس نے لون لے کر تعلیم حاصل کی ہے تو کیا شادی کے بعد اس کی ادائیگی کی اجازت ہوگی؟ شوہر ملک سے باہر ملازمت کررہا ہے تو اس کی غیر حاضری میں لڑکی سسرال میں رہے گی یا میکے میں یا الگ؟ یہ معاملات دونوں خاندانوں والے خود طے کرسکتے ہیں اور واسطہ بننے والوں کی مدد بھی حاصل کی جاسکتی ہے _ ۔
(7) جو لڑکے اور لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچ گئے ہوں اور ابھی ان کی شادی نہ ہوئی ہو ، یا حال ہی میں وہ رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے ہوں ، ان کی اجتماعی کونسلنگ بھی کی جانی چاہیے _ ان کو ایک ایسے کورس سے گزارا جائے جس میں اسلام کی عائلی تعلیمات اور حقوق الزوجين بیان کیے گئے ہوں _ انھیں بتایا جائے کہ خاندان میں خوش گواری کیسے قائم رکھی جاسکتی ہے؟ اور اگر اختلافات پیدا ہونے لگے تو انہیں کیسے حل کرنا چاہیے؟
(8) شادی کے بعد کونسلنگ انفرادی کی جاسکتی ہے اور اجتماعی بھی _ انفرادی کونسلنگ مرد بھی کرسکتا ہے اور عورت بھی ، البتہ بہتر ہے کہ مرد کونسلر لڑکوں اور مردوں کی کونسلنگ کرے اور خاتون کونسلر لڑکیوں اور خواتین کی کونسلنگ کرے
۔
(9) عائلی تنازعات حل کرنے کے لیے فیملی کونسلنگ سینٹر قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ، جہاں انہیں اجتماعی طور پر حل کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں _ اس کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے ، جو عالمِ دین ، قانونی صلاح کار ، ماہرِ نفسیات ، ڈپلومہ یا ڈگری ہولڈر کونسلر اور بڑی عمر کی تجربہ کار خواتین وغیرہ پر مشتمل ہو _ ان میں سے کسی ایک کو کنوینر بنادیا جائے _ کمیٹی کے تمام افراد کا ہر نشست میں موجود رہنا ضروری نہیں ، حسب سہولت و ضرورت ان میں سے چند افراد کا موجود ہونا کافی ہے _ کونسلنگ سینٹر ایسی جگہ قائم کیا جائے جہاں مکمل پرائیویسی ہو ، تا کہ فریقین سے اطمینان و سکون کے ساتھ گفتگو کی جا سکے _ کونسلنگ کے لیے ہفتے میں کم از کم ایک دن ضرور متعین کیا جائے _ ضرورت پڑنے پر زیادہ دن بھی کونسلنگ کی جا سکتی ہے _ دن اور وقت کا تعین کر دیا جائے ، تاکہ رجوع والوں کو آسانی ہو ، ہنگامی طور پر کسی تنازع کے تصفیے کے لیے کسی بھی دن ، کسی بھی وقت ، نشست رکھی جا سکتی ہے _ ۔
(10) کونسلنگ کا مخصوص طریقۂ کار اختیار کیا جائے _ مثلاً تحریری درخواست لی جائے ، زبانی شکایت پر کارروائی نہ کی جائے _ پہلے ہر فریق سے الگ الگ گفتگو کی جائے ، پھر دونوں فریقوں کو آمنے سامنے بٹھا کر بات کی جائے اور انہیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کی جائے _ جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے ، کسی نتیجے تک پہنچنے میں کئی نشستیں منعقد کرنی پڑ سکتی ہے _ کسی معاملہ کا تصفیہ ہونے کے بعد تفصیلی رپورٹ تیار کی جائے اور اسے کونسلنگ سینٹر کے ریکارڈ میں محفوظ کر لیا جائے _۔
جماعت اسلامی ہند کے مرکزی شعبۂ اسلامی معاشرہ کی طرف سے شادی سے قبل اور شادی کے بعد کونسلنگ کے خاکے تیار کیے گئے ہیں _ جو حضرات خواہش مند ہوں وہ واٹس ایپ نمبر (9582050234_91+) پر رابطہ کرسکتے ہیں _ ۔
پروگرام کے انعقاد اور رابطہ میں عزیزہ سلمیٰ تسنیم صالحاتی ( معاون سکریٹری شعبۂ خواتین ) نے بہت دل چسپی لی _ اللہ کرے ، اس طرح کے پروگراموں کے ثمرات سماج میں ظاہر ہوں، آمین _۔