تحریر:سلمان راوی
فضائیہ کے C-17 لڑاکو طیارے اور چار مرکزی وزراء کو مختلف ممالک میں تعینات کرکے، ہندوستانی حکومت نے یوکرین میں پھنسے طلباء کو واپس لانے کے لیے پوری طاقت جھونک دی ہے ۔ یوکرین کے مختلف شہروں میں اب بھی بڑی تعداد میں طلباء پھنسے ہوئے ہیں اور جنہیں فوری مدد کی ضرورت ہے۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یوکرین سے متصل یورپی یونین کے مختلف ممالک میں چار مرکزی وزراء کی تعیناتی سے طلبہ کو واپس لانے کا کام آسان ہو جائے گا؟
بھارت پہلے بھی ایسا کر چکا ہے۔ 1990 میں کویت سے، 2003 میں عراق سے اورپھر 2015 میں یمن میں جنگ ہوئی تھی۔
1990 میں، اس وقت کے وزیر خارجہ اندر کمار گجرال نے اب تک کے اس طرح کے سب سے بڑے آپریشن میں اہم کردار ادا کیا تھا، جس کے تحت 1.70 لاکھ سے زیادہ ہندوستانی شہریوں کو کویت سے نکالا گیا تھا۔
یہ دنیا کی سب سے بڑی ’ایئر لفٹ‘ مہم تھی
2015 میں جب یمن میں جنگ شروع ہوئی تو سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے ہندوستانی شہریوں کو ہندوستان سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
2003 میں بھی جب عراق پر امریکی حملہ ہوا تو ہندوستانی شہریوں کو بحفاظت واپس لانے کی مہم چلائی گئی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے خود اس مہم میں پہل کی تھی اور وہ مسلسل عراقی حکومت سے رابطے میں تھے۔
تاہم ہندوستان نے امریکہ پر تنقید کی اور چونکہ ہندوستان کے عراق کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اس لئے عراق کے اس وقت کے صدر صدام حسین نے 50 ہزار سے زائد ہندوستانی شہریوں کے اردن کے راستے ہندوستان واپس جانے کے لئے خصوصی انتظامات کئے تھے۔
بھارتی حکومت کیا کر رہی ہے؟
اسی طرح سال 2015 میں جب یمن میں جنگ شروع ہوئی تو وزارت خارجہ کے وزیر مملکت ریٹائرڈ جنرل وی کے سنگھ خود یمن گئے اور وہاں پھنسے ہندوستانی شہریوں کے محفوظ انخلاء کے لیے مقامی حکومت کے ساتھ خصوصی انتظامات کیے تھے۔
لیکن خارجہ اور تزویراتی امور کے ماہر اور لندن کے کنگز کالج میں بین الاقوامی امور کے شعبے کے سربراہ ہرش وی پنت نے بی بی سی کو بتایا کہ یوکرین کی صورتحال خلیجی ممالک سے بالکل مختلف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یوکرین میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو طلباء ہنگری، پولینڈ، رومانیہ، سلوواکیہ یا مالدووا کی سرحد تک پہنچنے میں کافی خوش قسمت رہے ہیں، ان کے لیے ہندوستان واپسی کا راستہ آسان ہو جائے گا، لیکن وہ طلباء جو ابھی تک کیف میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یا یوکرین کے دیگر شہروں میں ہیں ان کے لئے، صورتحال بہت تشویشناک ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں اعلیٰ سطحی میٹنگ کے بعد وی کے سنگھ یوکرین اور پولینڈ کی سرحد سے پھنسے ہوئے طلبہ کو واپس بھیجنے کے انتظامات کی نگرانی کریں گے، مرکزی وزیر ہردیپ سنگھ پوری ہنگری کے راستے طلبہ کو واپس بھیجنے کا انتظام کریں گے۔
اسی طرح جیوترادتیہ سندھیا مالدووا اور رومانیہ سے اس انتظام کی نگرانی کریں گے جبکہ کیرن رجیجو طلباء کو سلوواکیہ کے راستے ہندوستان بھیجنے کے عمل کی نگرانی کریں گے۔
تاخیر سے اٹھایا گیا قدم
ایک اور سینئر صحافی اور خارجہ اور اسٹریٹجک امور کے ماہر ابھیجیت ایر مترا کہتے ہیں کہ وزراء کی موجودگی کا بڑا اثر ہوتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اس میں وہ وسائل کے انتظامات اور ان ممالک کی حکومتوں کے ساتھ ہم آہنگی یا اپنے شہریوں کو ترجیح دینے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں، جو نہ تو سفیر اور نہ ہی کوئی سفارت خانہ کر سکتا ہے۔
مترا کا کہنا ہے کہ بھارتی طلباء کے ساتھ یوکرین کے فوجی افسران کے مبینہ بدتمیزی کی پریشان کن ویڈیوز سامنے آئی ہیں، اب اسے بھارتی وزراء کی موجودگی میں روکا جائے گا۔
ان کا ماننا ہے کہ وزراء کو اختیار ہے کہ وہ موقع پر ہی مناسب فیصلے لے سکیں گے، کیونکہ ایسے فیصلے لینے کے لیے عموماً سفیر یا سفارت خانے کے اہلکاروں کو دہلی سے ہدایت لینا پڑتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزراء کی موجودگی کو بھی ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ وہ دباؤ میں ہیں۔
لیکن جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسکول فار انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینٹر فار یورپی اسٹڈیز کے صدر گلشن سچدیوا کا کہنا ہے کہ ہندوستانی حکومت کا یہ اقدام اچھا ہے، لیکن وہ اسے ‘دیر سے اٹھایا گیا قدم ‘مانتے ہیں ۔
حکومت ہند روس سے بھی بات چیت کی ہوگی
گلشن سچدیوا کا کہنا ہے کہ’امریکہ سمیت کئی ممالک پہلے ہی یوکرین سے اپنے شہریوں کو نکال چکے ہیں، بھارت نے اس میں تاخیر کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوکرین کے دارالحکومت یا دوسرے شہروں میں پھنسے ہوئے طلبا ء کس طرح سے پولینڈ یا ہنگری کی سرحد پر پہنچ پائیں گے جب روسی فوجی کے حملے شروع ہوچکے ہیں ۔ ’نو فلائٹ زون‘ ہونے کے بعد واحد سہارا ہے سڑک یا ریل مارگ ۔ حملوں کے درمیان ریل یاسڑک مارگ کے راستے کتنی آسانی سے سرحدوں پر پہنچا جاسکتا ہے یہ بھی اب بہت مشکل ہو گیا ہے ۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اب بھی تقریباً 15000 ہندوستانی طلباء ہیں جنہیں فوری مدد کی ضرورت ہے جو اب بھی بنکروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اب تک ہندوستانی حکومت نے اپنے شہریوں کی محفوظ واپسی کے لیے روس سے بات کر لی ہوگی۔
ہرش پنت کا کہنا ہے کہ جو ہندوستانی طلباء یوکرین کے مشرقی حصے کے شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں، ان کا مغربی یوکرین میں واقع سرحدوں تک پہنچنا آج کی صورتحال میں بہت مشکل ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ خلیجی ممالک سے ہندوستانی شہریوں کو لانا آسان نہیں تھا لیکن پھر بھی زیادہ رکاوٹیں نہیں آئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یوکرین میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ لاکھوں مقامی شہری بھی سرحدوں سے نقل مکانی کر رہے ہیں، اسی لیے وہ ہندوستانی طلبہ کے خلاف بھی جارحانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں۔
لیکن گلشن سچدیوا کہتے ہیں،’جب جنگ چھڑ گئی ہے اور بم دھماکے اور حملے شروع ہو گئے ہیں، تو یہ سوچنا قدرے مشکل ہے کہ یوکرین کے پڑوسی ممالک میں ہندوستانی وزراء کی موجودگی سے ‘کوئی ’انقلابی تبدیلی‘ آئے گی۔ مسئلہ یوکرین، پولینڈ میں ہے یا ہنگری میں نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر سرحد پر پہنچنے والے طلباء کو واپس لانے کے انتظامات کر سکیں گے لیکن بنکروں میں پھنسے طلباء کی مدد کرنا اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
(بشکریہ : بی بی سی ہندی )