تحریر: سریندر سنگھل
بی جے پی کے عروج اور پولرائزیشن کی نئی سیاست کا یہ اثر بھی ہو رہا ہے کہ ایوانوں میں منتخب مسلم نمائندوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ مسلم کمیونٹی خود کو الگ تھلگ محسوس کر رہی ہے۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج سے معلوم ہوا کہ زیادہ تر مسلم اکثریتی نشستوں پر ان کا ووٹ سیکولر پارٹیوں اور ایک سے زیادہ انتخابی میدانوں میں لڑنے والے مسلم امیدواروں کے درمیان تقسیم ہوا۔ اس کے نتیجے میں بی جے پی یا دوسری پارٹی کا ہندو امیدوار 33 سے 37 فیصد ووٹ لے کر بھی آسانی سے جیت گیا۔ اس کی وجہ سے مندرآندولن کے تین دہائیوں کے دوران سماج میں جو نئی لہر ابھری اس سے مسلمانوں کی نمائندگی کم ہوگئی۔ یہ سلسلہ بلا روک ٹوک جاری ہے۔
اتر پردیش کے 2017 کے انتخابات میں 25 مسلم ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ ایس پی کے 67 امیدواروں میں سے 17، بی ایس پی کے 97 امیدواروں میں سے محض چھ اور کانگریس کے دو ہی مسلم امیدوار جیت حاصل کرپائے تھے۔ ڈاکٹر ایوبکی پیس پارٹی کو کل دولاکھ 27 ہزار 998 ووٹ یعنی 0.3فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کو 0.2فیصد یعنی محض دو لاکھ پانچ ہزار 232 ووٹ حاصل ہوئے تھے ۔
2012 کے انتخابات میں جب ریاست میں ایس پی کی مکمل اکثریت والی حکومت بنی تو 64 مسلم ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ ان میں سے 41 ایم ایل اے ایس پی، 15 بی ایس پی، تین پیس پارٹی اور تین آزاد ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ کانگریس کے دو ایم ایل اے تھے۔
سمجھا جاتا ہے کہ اس بار ایس پی سربراہ اکھلیش یادو کے والد ملائم سنگھ یادو نے الگ حکمت عملی اپناتے ہوئے مسلمانوں کے لیے کم امیدوار کی حکمت عملی بنائی ہے۔ اس سے بی جے پی حیران ہے۔ دوسری طرف بی جے پی مسلمانوں کو یہ کہہ کر میدان میں نہیں اتارتی کہ اس کے پاس جیتنے کی صلاحیت والے مسلمانوں کی کمی ہے۔
2022 کے انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کی کوشش یہ ہے کہ مسلم ووٹوں کی تقسیم اور پسماندہ طبقات کی تقسیم کو روکا جائے۔ اکھلیش یادو بہت سی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ احترام اور فراخدلی سے پیش آرہے ہیں اور ان کے ساتھ اتحاد میں سیٹیں بانٹ رہے ہیں۔ بی جے پی ان کی اس حکمت عملی کامقابلہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے چہرے کو سامنے رکھ کررہی ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ نے انتخابی مہم کی باگ ڈور سنبھال لی ہے۔ کئی مرکزی وزیر عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ وہیں اکھلیش یادو انتخابات کی زمینی حقیقت پر خاموشی اور سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آئندہ انتخابات میں مسلمانوں کو اسمبلی میں کتنی نمائندگی ملتی ہے۔
(بشکریہ: جن ستہ )