تحریر: عبدالسلام عاصم
پچھلے ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی نے خبردار کیا تھاکہ ایسے عناصر سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے جو ملک کا وقار مجروح کرنے کے لئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو منتخب طور پر اجاگر کرتے ہیں۔ انہوں نے بجا طور پر کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے کچھ واقعات کو اچھالنا اور کچھ کو نظر انداز کرنا جمہوریت کے لئے خطرناک ہے اور اس سے ملک کی ساکھ پر حرف آتا ہے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزی از خود ایک سماجی لعنت ہے اور اِسے کہیں نظر انداز تو کہیں اُجاگر کرنا اِس سے بھی بڑا غیر انسانی فعل ہے۔ ہر چند کہ وزیر اعظم نے وطن عزیز کے حوالے سے اِس رُخ پر بات کی ہے لیکن کسی جوابِ آں غزل سے زیادہ یہ منظرنامہ عالمی کینوس پر رکھ کر دیکھے اور سمجھے جانے کا متقاضی ہے۔
اِس معاملے کا اگر بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو تقریباً ہر دامن داغدار نظر آئے گا۔ ہندستان، پاکستان، روس، امریکہ اور چین ہی نہیں ایران، اسرائیل،فلسطین اور کئی دوسرے ملکوں میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات کوقابلِ اعتراض طریقے سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک عالمی المیہ ہے۔بین انسانی رشتے کو رنگ اور نسل، ذات اور مذہب میں بٹے حلقوں نے اِس بری طرح پامال کر رکھا ہے کہ کسی کی شکایت میں شاکی کے دکھ کو سمجھنے سے زیادہ اس کے ارادوں کو پڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اِس محاذ پر”علم زدگان“ اور ”عقائد کے جاں نثاران“ میں کہیں کوئی فرق نہیں۔ سب کو دوسرے کی آنکھ کا تنکا تو نظر آ جاتا ہے اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔
وطن عزیز میں آج تک کشمیر کے پنڈت اور مسلمان دونوں بھائیوں کے درمیان مذاہب کی سیاسی تعبیر سے پیدا کی جانے والی دوری کو سمجھنے اور اُسے دور کرنے کی کبھی علمی اور نفسیاتی کوشش نہیں کی گئی۔ کسی کے نزدیک یہ مسئلہ سیاسی ہے تو کسی کے نزدیک مذہبی۔ اسے بنیادی طور انسانی مسئلہ سمجھنے کی کسی کو توفیق ہی نہیں۔ اِس فقدان نے اِس داخلی بحران کو ہی ناسور نہیں بنایا بلکہ ایک سے زیادہ جنگیں بھی کرا دیں۔ خسارے میں آج بھی وہی دونوں ہیں۔تیسرے سبھی اِ سے نفع کشید کرنے میں لگے ہیں۔ انصاف کی نظر میں بہر طور یہ ایک انسانی المیہ ہے جسے لوگ سیاسی اور مذہبی عینکوں سے دیکھنے کے یا تو عادی ہو گئے ہیں یا ہماری نظریاتی تربیت ہمیں اُس تقسیم سے باہر نہیں نکلنے دے رہی ہے جس کی بنیاد دو طرفہ نفرت ہے۔
ہندستان کی تقسیم سے تسلی پانے میں ناکام پاکستان کی مذہبی رنگ کی فوجی اور سیاسی حکومتوں نے جہاں روز اول سے اِس محاذ پر اپنی نفرت سے آلودہ سوچ کی وجہ سے ایک سے زیادہ نسلوں کو تباہ کیا ہے وہیں ہندستان کی سابقہ نام نہاد سیکولر حکومتیں بھی منھ بھرائی کی سیاست میں الجھنے کو ترجیح دیتی رہیں۔ اصلاح معاشرہ کی دعویدار موجودہ حکومت بھی آزمائشوں کا جس طرح سامنا کر رہی ہے وہ امکانات کے رُخ پر پوری طرح اطمینان بخش نظر نہیں آتی۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ہم ردعمل کی سیاست سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے۔
خطے میں سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اور مذہبی سوچ کے جمود کے یہ عالم ہے کہ کسی بھی انسان کو اُس کی ”انتخابی افادیت“ کے بجائے اس کی ”بائی ڈیفالٹ شناخت“ کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔ اگر وہ خوش ہے تو وہ ایک خوش ہندو یا مسلمان ہے اور کسی سبب سے دُکھی ہے تب بھی وہ ایک دکھی ہندو یا مسلمان ہے۔مذاہب کی اِس نوعیت کی گردان نے بیچ سے جیسے انسان کو غائب ہی کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر شکایت گزار کو اپنی شناخت کا یا تو فائدہ پہنچتا ہے یا اُسے اُس کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔
ہندستان اور پاکستان کی موجودہ قسمت کو نہ کسی خدا نے لکھا ہے نہ بھگوان نے۔ اِسے نسلِ رفتہ کے اُن غیر ذمہ داروں نے لکھا ہے جن کی نسلیں ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئیں۔ اپنے یہاں بدقسمتی کی انتہا یہ ہوئی کہ اِس بدبختی سے نجات دلانے والے لبرل عناصر اور کمیونسٹوں نے بھی عوام کے ساتھ اپنے محدود مفاد کا دھوکہ ہی کیا۔ اترپردیش اور بعض دوسری ریاستوں کو جہاں کانگریس اور دوسری نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے اپنی موقع پرستانہ سیاست کی وجہ سے مذہبی منافرت کے گڑھ میں تبدیل کر دیا وہیں مغربی بنگال اور تریپورہ میں مزدوروں کے حقوق اور فرائض میں سے کمیونسٹوں نے فرائض کو ایسا غائب کیا گیا کہ تین دہائیوں میں ان ریاستوں میں صنعتی و تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئیں۔
قومی سطح پرذات پات کی سیاست سے آلودہ اقلیتی ووٹ بینک والے سیکولرزم کے تباہ کُن سفرکے بعد آج وطن عزیز کا سیاسی اور سماجی کارواں جس موڑ سے گزر رہا ہے وہاں نظریاتی فرق کی سیاست نے ملک میں اکثریت اور اقلیت دونوں کو بری طرح کنفیوز کر رکھا ہے۔ واقعہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر انسانی حقوق کی وضاحت کرتے ہیں۔ اُنہیں وہاں تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی نظر آ جاتی ہے جہاں کسی نقصان کا دائرہ بظاہر اُن تک ہی محدود ہے لیکن وہ اُن دوسرے واقعات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں دیکھ پاتے جہاں بہ باطن وہ خود بھی خسارے میں ہیں۔ اگر ایک سے زیادہ حلقے ایسی ذہنیت کے شکار ہیں تو اِس سے انسانی حقوق کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ انسانی حقوق کی اصل خلاف ورزی اُس وقت ہوتی ہے جب اُنہیں سیاسی عینک سے دیکھا جانے لگتا ہے۔ سماج کا یہ انتخاب پسندانہ رویہ حقیقی جمہوریت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔
آج کا منظر نامہ صرف ان کے لئے ڈراونا نہیں جو واقعی ڈرے ہوئے ہیں۔ اس منظر سے وہ لوگ بھی خوش نہیں جنھیں سرِدست اپنی بائی ڈیفالٹ پہچان سے کسی فوری نقصان کا سامنا نہیں۔ ایسے میں اگر کوئی یہ امید کرتا ہے کہ ملک کی ایک سے زیادہ نظریاتی جماعتیں اور دیر و حرم کے ذمہ داران سر جوڑ کر بیٹھ کر کوئی حل نکال لیں گے تو وہ یا تو انتہائی معصوم انسان ہے یا حالات سے اس قدر بیزار کہ اس نے سوچنا از خود ترک کر دیا ہے۔ یہ منظر نامہ ایک دوسرے کو مسترد کر کے ہرگز نہیں بدلا جا سکتا۔
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ جب کوئی حکومت بدلتی ہے تو نئی حکومت کو ذمہ داریاں اور دشواریاں دونوں ورثے میں ملتی ہیں۔ نئی حکومت ہر پریشانی کو ورثے میں ملی پریشانی کا نام دے کر کچھ دن تو گزار سکتی ہے لیکن جب اُس کی اپنی میعادوں میں بھی لوگوں کو اُن پریشانیوں سے نجات نہیں ملتی تو عوام کی مایوسی بڑھنے لگتی ہے۔ حکومتی سیاست کے اس پہلو کا تجزیہ کرنے والے اکثر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ عوامی بہبود کیلئے حکومتوں کو نہیں حکمرانوں کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ ضرورت کون پوری کرے! یہ کام نہ دعاوں سے ممکن ہے نہ آستھاوں سے۔ اس کے لئے ایک ایسے فکری انقلاب کی ضرورت ہے جو مرغے کی ایک ٹانگ کی طرح یمینی یا یساری نہ ہو بلکہ شعوری اور صحت مند اعتدال کا نمونہ ہو۔ متوازن چال ہی کسی مسافر کو منزل آشنا کرتی ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ نئی نسل کو بے ہنگم ضد اور کہانیوں والے چمتکار پر انحصار سے باہر نکالا جائے۔ ایک ایسا معاشرہ خلق کیا جائے جس میں شرارت سے محروم بچے بلوغت کا سفر جرم کے اردے سے نہ کریں۔ انسانی حقوق کا پاسدارصحت مند سماج چوکیداروں کی غیر ضروری تاک جھانک سے وجود میں نہیں آتا۔ اس کے لئے سماج کے ہر حلقے کو بھر پور گنجائشیں فراہم کرنا پڑتی ہیں۔ اگر کسی حلقے یا فرقے کے رسم و رواج کا کوئی پہلو کسی کو پسند نہیں تووہ اپنی ناپسندیدگی کے اظہار کو کسی نزاع کی بنیاد نہ بنائے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں بعض ہمسایوں کی ایسی خرابیاں بُری طرح در آئی ہیں اور ہم بھی گنجائشوں سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
موجودہ منظرنامہ بہر حال راتوں رات نہیں بدلا۔ یہ دہائیوں کی ناعاقبت اندیشیوں اور شرارتوں کا نتیجہ ہے۔ ہر تبدیلی کی کھاد فراہم کی جاتی ہے۔ آج جو لوگ پریشان ہیں اُن کی پریشانی کی کاشت بھی نسل ِ رفتہ نے کی تھی۔ اِس کا مطلب بہر کیف یہ نہیں کہ کسی کی پریشانی کو اُس کے اعمال کی سزا سمجھ کر دور نہ کی جائے۔ سماجی پریشانیوں کا ازالہ البتہ حکمت طلب ہوتا ہے، صرف احتجاج طلب نہیں۔ مذہبی کتابوں میں بھی درج ہے کہ غافل لوگ مصیبتوں کو مدعو کرتے ہیں اور پھر تکلیف کی شکایات کا ازالہ نہ ہونے پر سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ حقیقی تعلیم قوموں کو انہی انسانی فروگزاشتوں کی گرفت سکھاتا ہے۔ ایسی فروگزاشتوں میں مکمل غیر صحت مند رجحانات کا راست اور بالواسطہ دخل ہوتا ہے جن پر قابو پاکرہی ہم ایک ایسا معاشرہ خلق کر سکتے ہیں جس میں ”گونا گونی“ اور ”دورنگی“ کے فرق کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ہمارا کثرت میں وحدت والا معاشرہ”سراسر موم یا پھر سنگ ہوجا“ کے کسی بے تکے نسخے کا متحمل ہرگز نہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)