تحریر:ڈاکٹر سلیم خان
اتر پردیش میں آج کل کانگریس پارٹی کا ترانہ ’لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں دھوم مچا رہا ہے‘۔ کانگریس پارٹی کے چینل پر اسے ۳ لاکھ ۸۴ ہزار، کانگریس اتر پردیش پر ۳ لاکھ ۵۵ ہزار اور پرینکا کے چینل پر اسے ۸۴ ہزار بار دیکھا جاچکا ہے۔ کسی آئی ٹی سیل کی مدد کے بغیر یہ کم تعداد نہیں ہے۔ یہ ویڈیو جس دن ریلیز ہوئی اسی روز کانگریس کی کارکن ریتا یادو نے مودی کی ساری سکیورٹی کو چکما دے کر شاہجہاں پور میں انہیں کالی جھنڈی دکھا دی اور یہ ثابت کردیا کہ ’لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں‘ ۔ اس رسوائی کا انتقام لینے کی خاطرہفتوں کے بعد سلطانپور میں کچھ بدمعاشوں ریتا یادو کی بولیرو گاڑی کو اوور ٹیک کرکے روک دیا اور ان کے ڈرائیور کو ڈرانے دھمکانے لگے ۔ ریتا نے انہیں سمجھایا نہیں مانے تو ایک طمانچہ جڑ دیا۔ اس کے جواب میں زعفرانی غنڈوں نے ریتا کے پیر پر گولی چلادی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ریتا یادو ڈر جائے گی نہیں کیونکہ اس کےسیاسی قبیلے کا نعرہ ہے’لڑکی ہوں میں لڑ سکتی ہوں‘۔
اترپردیش کو جرائم سے پاک کرنے اعلان کرنے کا دعویٰ کرنے والے وزیر داخلہ کو یہ جرم نظر نہیں آئے گا۔ امیت شاہ کو عینک بدل کر اپنے ڈپٹی اجئے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا کی فرد جرم بھی دیکھالینی چاہیے جس میں اسے کسانوں کے قتل عام کا ماسٹر مائنڈ پایا گیا ہے اور اس کا کریڈٹ بھی کہیں نہ کہیں پرینکا گاندھی کو جاتا ہے ورنہ یوگی جی تو معاملہ رفع دفع کرہی چکے تھے۔ پرینکا نے ہی سب سے پہلے لکھیم پور کھیری میں یوگی کا داوں پلٹ دیا۔ یوگی یہ سوچ رہے تھے کہ معاوضہ اور ملازمت دینے سے بات بن جائے گی ۔ گودی میڈیا تو خوب جی بھر کے یوگی کی تعریف کررہا تھا لیکن پرینکا کے لکھیم پور کھیری جانے کے فیصلے نے ہوا کا رخ بدل دیا ۔ ویسے اس فیصلے میں کوئی خاص بات نہیں تھی ۔ ان کو اگر ہلاک ہونے والے کسانوں کے خاندان سے ملنے دیا جاتا تو وہ کوئی بڑی خبر نہیں بنتی مگر یوگی نے پرینکا کو حراست میں لے کر ڈرانے کی کوشش کی ۔ یوگی کو امید تھی کہ وہ ہاتھ جوڑ کر واپس چلی جائیں گی لیکن پرینکا نے تو یہ کہہ کر یوگی انتظامیہ کا پنجہ مروڈ دیا کہ مجھے گرفتار کرلو میں واپس نہیں جاوں گی۔’لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں ‘۔
پرینکا گاندھی کی جیل سے جاری ہونے والی ویڈیو کے بعد یوگی جی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے؟ ان کو کن دفعات کے تحت گرفتار کیا جائے؟ اسی طرح راہل کو ڈرانے کی کوشش بھی ناکام رہی اور جب وہ لکھیم پور جاتے ہوئےاپنی بہن کے پاس پہنچے پرینکا کو رہا کردیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب یوگی جی ڈر گئے اور ’لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں ‘ کی فضا بننے لگی۔ اس کے بعد جب پولس کی مارپیٹ سے ہلاک ہونے والے دلت نوجوان کے گھر والوں سے ملنے کی خاطر آگرہ پہنچیں تو خاتون پولس اہلکاروں نے فخر سے پرینکا گاندھی کے ساتھ سیلفی نکالی ۔ وہ معاملہ بھی دب جاتا مگر یوگی انتظامیہ نے ان پولس والیوں پر کارروائی کرکے اس کوخبر بنادیا ورنہ سیکڑوں لوگ وزیر اعظم کے ساتھ سیلفی کھینچتے ہیں مگر ان کو کوئی نہیں پوچھتا۔
اس واقعہ نے پرینکا گاندھی کو خواتین کے اندر اپنی مقبولیت کا اشارہ دیا اور انہوں نے خواتین کے لیے خصوصی منشور کا اعلان کرکےچالیس فیصد خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا اعلان کردیا ۔ کانگریس کے پاس ویسے ہی کارکنان کی کمی ہے ایسے اس کے لیے سبھی حلقۂ انتخاب سے امیدواروں کا ملنا ایک مسئلہ ہے اس لیےچالیس فیصد خواتین کو ٹکٹ سے نواز دینا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کانگریس اگران ذاتوں کی خاتون امیدوار میدان میں اتار دیں جو بی جے پی کو ووٹ دیتی ہیں تو اس سے بی جے پی کو جھٹکا لگ سکتاہے۔ اس دوران کانگریس نے دہلی میں مہنگائی کے خلاف ریلی کرنے کا اعلان کیا کیوں کہ خواتین سب سے زیادہ مہنگائی کی مار کا شکار کرتی ہیں ۔ بی جے پی والے اس سے ڈر گئے اور وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والی دہلی پولس نے اجازت منسوخ کردی ۔ کانگریس نے اپنا پروگرام جئے پور منتقل کر دیا جہاں اشوک گہلوت نے سرکاری انتظامیہ کا استعمال کرکے اس کو ایسی کامیابی سے ہمکنار کیا جس کا تصور محال تھا۔ اس طرح پھر ایک بار بی جے پی نے بلاواسطہ اپنے حریف کا بھلا کردیا کیونکہ دہلی کے اندر ویسی بھیڑ کا اکٹھا کرنا کانگریس کے لیے ناممکن تھا ۔
راجستھان اور اترپردیش میں بڑا فرق ہے اس کو مٹانے کی خاطر امیٹھی میں ریلی طے کی گئی اور اس کو زبردست کامیابی ملی۔ اس جلسہ میں خواتین کی موجودگی نے بی جے پی ہائی کمان کو سوچنے پر مجبور کردیا ۔ایک زمانے تک رحجان سازی کرنے وا لے نریندر مودی کو خواتین کا خصوصی جلسہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ پرینکا کا نعرہ ’لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں ‘ میں لڑکی کون ہے یہ تو سب سے جانتے تھے لیکن کس سے لڑ سکتی ہے ؟ یہ واضح نہیں تھا ۔ مودی نے خواتین کی خاطر خصوصی ریلی کرکے تسلیم کرلیا کہ یہ لڑکی کس سے لڑ سکتی ہے؟ پریاگ راج میں نریندر مودی نےخواتین کے لیے مخصوص پروگرام میں اعلانات کی جھڑی لگا دی۔ وزیر اعظم نے1000 کروڑ روپے کی رقم سیلف ہیلپ گروپس کے کھاتوں میں منتقل کرکے تقریباً 16 لاکھ خواتین ممبران کو فائدہ پہنچانے اعلان کیا۔ اس کے تحت فی امدادی گروپ 1.10 لاکھ روپے کے حساب سے 80,000 گروپوں کو کو کمیونٹی انویسٹمنٹ فنڈ (سی آئی ایف) اور 15 ہزار روپے فی سیلف ہیلپ گروپ کے حساب سے 60 ہزار گروپوں کو آپریشنل فنڈز فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں 20 ہزار ‘کاروباری سکھیوں‘ (بزنس کورسپونڈنٹ سکھی۔ بی سی سکھی) کے کھاتوں میں پہلے ماہ کے لیے 4000 روپے کا وظیفہ بھی منتقل کرنے کی بات کہی ۔ پی ایم مودی نے اس مدت کے دوران ’مکھیا منتری کنیا سمنگل یوجنا‘ کے تحت ایک لاکھ سے زیادہ مستحقین کو 20 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم بھی منتقل کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ اس اسکیم کے تحت لڑکیوں کو ان کی زندگی کے مختلف مراحل میں شرائط کے ساتھ نقد رقم کی منتقلی ملتی ہے۔ اس منتقل ہونے والی کل رقم میں فی مستفید کو15,000 روپے ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف مراحل میں پیدائش (دو ہزار روپے)، ایک سال کے بعد تمام ویکسی نیشن حاصل کرنا (ایک ہزار روپے)، پہلی کلاس میں داخلہ لینے پر (دو ہزارروپے)، چوتھی کلاس میں داخلہ کے بعد (دو ہزار روپے)، نویں کلاس میں اندراج پر(تین ہزار روپے)، دسویں یا بارہویں جماعت پاس کرنے کے بعد کسی بھی ڈگری/ڈپلومہ کورس میں داخلہ لینے کی صورت میں (پانچ ہزار روپے)ملتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ انتخاب سے پہلے صرف اترپردیش کی خواتین کے لیے یہ اعلان رشوت نہیں تو اور کیا ہے؟
وزیر اعظم ایک زمانے میں پچھلی حکومتوں پر قوم کو بھیک منگا بنانے کا الزام لگا کر خود کفیل بنانے کی باتیں کرتے تھے لیکن اب خود وہی سب کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں یہ ان کی اخلاقی شکست ہے۔ ویسے یہ اب بہت گھسا پٹا طریقہ بن گیا ہے اس لیے یہ ضروری نہیں کہ ان سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والی رائے دہندگان اس سے متاثر ہوکر بی جے پی کو ووٹ دیں کیونکہ سرکاری خزانے سے ملنے والی یہ رقم عوام کے ٹیکس سے جمع ہوئی ہے اس لیے احسانمندی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ نئی نسل تو اس کے جھانسے میں ہر گز نہیں آئے گی ۔ موجودہ نسل کو متوجہ کرنے کے لیے کانگریس نے’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ کے عنوان سے میرٹھ میں میراتھن دوڑ کا انعقاد کیا اور اپنی ندرت کے سبب وہ بھی توقع سے زیادہ کامیاب رہی۔
کانگریس کے مخالفین کا دعویٰ تھا کہ اس مقابلے میں 100 لڑکیاں بھی نہیں پہنچ پائیں گی، لیکن تقریباً 4500 لڑکیوں نے اس میں حصہ لیا۔ جھانسی میں تو سنا ہے دس ہزار خواتین نے شرکت کی ۔ اس کامیابی کے بعد کانگریس نے اترپردیش کے شہروں میں خواتین کی میراتھن کا فیصلہ کیا ہے۔ کانگریس کو بجا طور اس کے مخالفین یہ کہہ کر منہ چڑھا رہے ہیں کہ اس کے پاس نہ کارکن ہے نہ روپیہ ہے ۔ اس کے جواب میں پرینکا نے فلم دیوار کے طرز پر نیا نعرہ دیا ہے’میرے پاس بہن ہے‘۔ اس میں شک نہیں کہ کانگریس اس صوبائی میں کوئی بڑی کامیابی نہیں درج کراپائے گی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے بی جے پی کو فکر مند کردیا ہے ۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر بی جے پی کے زوال کا سلسلہ جاری رہا تو 2024 میں کمل کےلیے ہاتھ مشکلات کھڑا کرے گا۔ اس سے وہ کیسے نمٹے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا کیونکہ اگر خواتین نے کمل کا سرقلم کرنے کا فیصلہ کرلیا تو مودی جی کی چھٹی سمجھو۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)