بیرونس سعیدہ وارثی
ہم مسلمان اپنے کمال پر ہوتے ہیں جب علم اور علمیت کو اہمیت دیتے ہیں اور وہ ان کا سب سے برا روپ وہ ہوتا ہے جب ان میں سے اقلیت دین کی غلط تشریح کے نتیجے میں عدم برداشت اور انتہاپسندی کے راستے پر چل نکلتی ہے۔
اسلام میں روشن خیالی اور علمیت کی روایت کی سب سے اچھی مثالیں اس کے اس سنہرے دور سے ہی مل سکتی ہیں جو 8ویں صدی کے وسط سے لے کر1258 تک پھیلا ہوا تھا جب بغداد پر منگولوں نے حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا۔
اس دور میں اسلامی تہذیب کی سمت جنگ کی آگ میں نہیں بلکہ علم و حکمت کی لائبریریوں میں طے ہوئی تھی۔ اس کا مقام یونان سے لے کر ایران جیسی قدیم تہذیبوں سے حاصل ہونے والی انسانی سمجھ بوجھ میں اضافہ کرنے میں تھا۔
ان صدیوں میں عرب دنیا کو سائنس، فلسفے، طب اور ایجوکیشن کے میدان میں ’سینٹر فار ایکسیلنس‘ کا درجہ حاصل تھا۔ اس دور میں نہ صرف علمیت کا اعلیٰ معیار قائم ہوا بلکہ مسلمانوں اور مختلف عقائد کے درمیان تعاون کی بھی روایت قائم ہوئی۔
اندلس یا اسلامی ہسپانیہ میں بھی، جہاں مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگ ساتھ ساتھ رہتے تھے، اسلامی روشن خیالی کے اس دورمیں تعلیم کا بول بالا ہوا۔
یہ اسلامی سنہرا دور دین اسلام اور خاص طور پر پیغمبر اسلام حضرت محمد۔ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ اسلام میں مذہب اور اخلاقیات کے دو اہم ماخذ قرآن اور حدیث ہیں۔ قرآن ایک وسیع اخلاقی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے اور احادیث مسلمانوں کو سکھاتی ہیں کہ قرآن کے اصول و ضوابط پر کس طرح روز مرہ زندگی میں عمل کیا جانا ہے۔ اس بات سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ احادیث اور ان کا صحیح ہونا اسلام میں کتنا اہم ہے۔
اسلامی سنہرے دور کی جس شخصیت کے بارے میں میں آج بات کرنا چاہتی ہوں وہ غالباً اس دور کے سب سے اہم عالم ہیں۔ محمد ابن اسماعیل البخاری یا صرف امام بخاری۔ دنیا بھر کے مسلمانوں میں ان کا مقام احادیث کے سب سے مستند مجموعے کی تیاری کی وجہ سے ہے۔
ان کی کتاب صحیح بخاری میں انتہائی محنت سے جمع کی گئی سات ہزار سے زیادہ احادیث درج ہیں جو مسلمانوں کی روز مرہ زندگی میں رہنمائی کرتی ہیں۔ حیران کن طور پر اپنی زندگی پیغمبر اسلام حضرت محمد کے نام وقف کر دینے والے اس انسان کی کہانی عرب کے صحراؤں میں شروع نہیں ہوتی جہاں پیغمبر اسلام کی زندگی گزری تھی بلکہ اس کی شروعات وسطی ایشیا کے میدانوں میں ہوتی ہے۔
یہ شاید اسلام اور پیغمبر اسلام کی سرحدوں اور نسلوں کی قید سے آزاد عالم گیریت کی شان ہے کہ عرب میں اسلام کے مقدس مقامات سے ہزاروں میل دور پیدا ہونے والے عالموں نے اسلام کی تعریف اور وضاحت کی۔
امام بخاری 9ویں صدی کے آغاز میں بخارا شہر میں پیدا ہوئے جو آجکل ازبکستان کا حصہ ہے۔ بخارا اور سمرقند کے جڑواں شہر اس وقت عالمی تجارت کی مرکز شاہراہ ریشم کے اہم مراکز اور علم اور تہذیب کے پھلتے پھولتے گہوارے تھے۔
بخارا صرف امام بخاری کی جائے پیدائش نہیں تھا بلکہ اس شہر نے اسلامی دنیا کو ابن سینا جیسی شخصیت بھی دی جن کا طب کے شعبے میں کام انقلابی حیثیت رکھتا ہے۔
امام بخاری کا خاندان ان سے دو نسلیں پہلے ہی مسلمان ہوا تھا اور پیغمبر اسلام کی طرح ان کو بھی اپنے والد کے انتقال کے بعد ابتدائی زندگی میں آزمائشیں پیش آئیں۔ اس زمانے کے پدرشاہی معاشرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے اور ان کے خاندان کے لیے زندگی آسان نہیں رہی ہوگی۔ اس چیز کا بظاہر کمسن امام بخاری کی شخصیت پر دیر پا اثر ہوا اور وہ اپنی تعلیم کے ہر شعبے میں بہترین مقام حاصل کرنے کی جستجو میں لگ گئے۔
ان کے بچپن کا ان کی بعد کے کام پر بھی اثر نمایاں اثر نظر آتا جس میں انھوں نے سماجی انصاف اور کمیونٹی کے تصور پر بہت زور دیا جیسا کہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات میں بھی واضح ہے۔
لیکن ان کی زندگی تبدیل کرنے کرنے والا باب وہ تھا جب وہ 16 برس کی عمر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ حج کے لیے مکہ اور مدینہ گئے۔ نوجوان امام بخاری کے لیے غالباً برسوں پر محیط ہزاروں میل کا یہ سفر انتہائی یادگار اور متاثر کن رہا ہو گا۔ اس سفر نے ان کے اندر تجسس کا ایسا دیا جلایا جو انہیں ایسی مسافتوں پر لے گیا جو 16 برس سے زیادہ عرصے تک جاری رہیں۔
یہ سفر اس نوجوان عالم کو قاہرہ کے بازاروں اور دمشق اور بغداد کے قدیم شہروں تک لے گئے۔ یہ سفر اور ان مقامات پر جانا جہاں تقریباً 150 برس پہلے پیغمبر اسلام نے تبلیغ کی تھی، دنیا میں مقام کے متلاشی ایک نوجوان کے لیے، دریافتوں کے سفر رہے ہوں گے۔
امام بخاری پر پیغمبر اسلام کی شخصیت کا گہرا اثر تھا۔ ان کی باقی زندگی اس بات کو یقنی بنانے میں گزری کہ اسلام کی ہمدردی، بقائے باہمی، مساوات اور سماجی انصاف جیسی حقیقی اقدار پیغمبر اسلام کے الفاظ اور اعمال کے ذریعے دنیا تک پہنچیں۔
امام بخاری نے اپنے لیے مشن طے کیا وہ پہاڑ جیسا تھا۔ انھوں نے احادیث کی تصدیق کے لیے اسلامی دنیا کے دور دراز علاقوں کا سفر کیا اور کونے کو نے تک گئے۔ کہا جاتا ہے کہ امام بخاری ایک ہزار سے زیادہ علما اور ہزاروں ایسے دیگر افراد سے ملے جن کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس پیغمبر اسلام کی مستند احادیث ہیں۔
(بشکریہ: بی بی سی )