تحریر:سرفرازاحمد قاسمی،حیدرآباد
یہ روسی صدر کا بیان ہے جسکا خیر مقدم بڑے پیمانے پرکیا جانا چاہیے،پوری دنیا میں مسلمان یہی سمجھاتے رہے لیکن انکی بات کو ان سنی کردی گئی،آج یہی بات پوٹن کہہ رہےہیں تو کچھ غلط نہیں کہہ رہے ہیں،دنیا کو آج امن کی ضرورت ہے،اور امن کے قیام کےلئے یہ ضروری ہے کہ ہر مذاہب کے ماننے والے اور ان کی مقدس شخصیات کا احترام کیاجائے،بصورتِ دیگر دنیا میں امن کا قیام ایک خواب ہی رہےگا،اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر دنیا بھر میں بالخصوص یورپی ممالک میں جو تماشے ہوتے رہتےہیں اس کا سلسلہ بند ہونا چاہئے،یورپی ممالک اور ان کے لیڈران کو روسی صدر کے اس بیان کو بار بار پڑھنا،سمجھنا اور ذہن نشین کرناچاہئے۔
یورپ کے لیڈران اس طرح کے کئی مواقع پر مضحکہ خیز بیان دیتے رہے ہیں، انھیں حالات کو سمجھنا چاہیے اور پوٹن سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔تھائی لینڈ،فرانس اور چین کے علاوہ دیگر ممالک کی حکومتوں نے دہشت گردی مخالف کارروائی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف جو ظلم وستم کا سلسلہ ماضی میں شروع کیا اور جیلوں میں مسلمانوں کو قید کیاجانے لگا، انھیں مذہبی فرائض اداکرنے پر سزائیں دی جانے لگی،یہ چیزیں امن کے قیام کےلئے بڑی رکاوٹ ہے،امریکی سابق صدر بش نے جو ماحول بنادیا تھا اوباما اس خلیج کو پاٹنے میں سرگرداں رہے لیکن اس کے بعد ٹرمپ نے بش کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی اور مسلم مخالف لہر میں مزید اضافہ کیا،ابھی گزشتہ ماہ امریکی ایوان نمائندگان میں اسلاموفوبیا کے خلاف بل منظور کیاگیاہے،اس بل کی حمایت خود امریکی صدر بائیڈن نے کی اور اسے پاس کرایا،بائیڈن پھر سے امریکہ کو اسی ڈگر پر لے جانا چاہتے ہیں ہیں جہاں اوباما نے اسے چھوڑ دیاتھا،اسلاموفوبیا کے خلاف بل پاس کرانا اسی کا حصہ ہے، یہ سب دنیا کے بدلتے حالات کی جانب ایک اہم اشارہ کررہے ہیں،امریکہ ماضی میں روس کا کٹر حریف رہاہے،چین کا مقابلہ کرنے اوراسے اطمینان بخش طریقے سے گھیرنے کےلئے امریکہ نے اسلاموفوبیا کے خلاف بل پاس کیا ہے کیوں کہ وہ جانتاہے کہ چین سے مقابلہ اس وقت تک نہیں کیاجاسکتا جب تک اسلاموفوبیا کے خلاف کوئی ٹھوس کام نہ ہو،چین ایک عرصے سے ایغور مسلمانوں پر ظلم وستم جاری رکھے ہوئے ہے ایسے میں امریکہ کی یہ ساری جدوجہد چین کو گھیرنے کےلئے بھی ہورہی ہے۔
روسی صدر نے اس ایشو کےلئے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جو مسلمانوں کےلئے بے حد اہم ہے،اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ بدلتی دنیا اور بدلتے حالات میں اسلام اور مسلمان ایک اہم ایشو ہیں انھیں نظر انداز کرکے دنیا میں کوئی بھی تبدیلی کارگر نہیں ہوسکتی،پوٹن کے اس بیان پر پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اس بیان کا خیر مقدم کیاہے،ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ روسی صدر کے بیان کا میں خیر مقدم کرتاہوں،انکا بیان میرے موقف کی تائید ہے،امت مسلمہ کو اسلاموفوبیا کے مقابلے کےلئے اس پیغام کو غیر مسلم دنیا تک پہنچانا چاہئے،میں اس بیان سے مکمل اتفاق کرتاہوں’اسی طرح امارت اسلامی افغانستان نے روسی صدر کے اس بیان کا پرزور انداز میں خیر مقدم کیا ہے۔‘
طالبان کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا کہ’امارت اسلامی روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے بیان کا خیر مقدم کرتی ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی اظہار رائے کی آزادی نہیں،بلکہ یہ آزادی مذہب اور مسلمانوں کے مقدس جذبات کی خلاف ورزی ہے۔‘اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ صدر پوٹن کا نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دیا گیا بیان خوش آئند ہے۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے توہینِ رسالت اور اسلاموفوبیا کے معاملے پر مسلم ممالک کے سربراہان کو گذشتہ دنوں خط بھی لکھ چکےہیں،روسی صدر کے اس بیان کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم ہونا چاہئے لیکن افسوس یہ ہے کہ مسلم ممالک کے دیگر حکمرانوں کا اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا جبکہ یہ انتہائی حساس موضوع ہے،پھر اس معاملے پر مسلم حکمرانوں کی معنی خیز خاموشی کا کیا مطلب ہے؟ایک چیز اور بھی قابل غور ہے کہ عالمی حکمرانوں کو تحفظ ناموس رسالت پر قانون سازی کرنی چاہئے اور اسطرح کی حرکت کرنے والوں کےلئے سخت سزا کا التزام کیاجانا چاہئے۔اظہارِ رائے کی آزادی کا دائرہ بھی جمہوریت کے علمبرداروں کو طے کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ دنیا میں امن وامان کا قیام ممکن ہوسکے، اس گئے گذرے دور میں مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتاہے لیکن اپنے نبی اور رسول ﷺ کی عزت وحرمت کو پامال ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا،آپ ﷺ کی عزت و حرمت ایک مسلمان کےلئے سب سے قیمتی چیز ہے۔
ہندوستان سمیت دنیا بھر میں آئے روز جو تماشے ہورہے ہیں اور اسے اظہار رائے کی آزادی کا نام دیا جارہا ہے یہ بہر حال غلط ہے،دھرم سنسند کے نام پر جو نفرت اور غلاظت پھیلائی جارہی ہے یہ کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں ہے اور حکومتوں کی خاموشی مزید تشویشناک ہے یہ سلسلہ بالکل بند ہوناچاہیے،اسلام کا مستقبل ابھی تاریک نہیں ہوا ہے، حکمرانوں کو یہ یادرکھنا ہوگا،2010 میں برصغیر کے ایک جہاں دیدہ اور بہت بڑے عالم،معروف فقیہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب جب ہندوستان آئے تھے تو دارالعلوم دیوبند کی مسجد رشید میں بعض اساتذہ کے اس سوال پر کہ آپ نے پوری دنیا کی سیر کی ہے،دنیا کی کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں آپ کو اللہ نے نہ پہونچایا ہو ہر جگہ اللہ نے کو سفر کرایا یہ بتائیں کہ پوری دنیا میں آپ کو اسلام کا مستقبل کیسا نظر آیا؟مفتی صاحب نے بڑے پروقار انداز اور انتہائی اطمینان کے ساتھ یہ فرمایا کہ دنیا میں اسلام کا مستقبل تابناک اور روشن ہے،اس سلسلے میں ہمیں فکر مند ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے،روسی صدر کا بیان اس حقیقت کی تصدیق کےلئے کافی ہے۔
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)