نقطہ نظر :ابوالہول ہوشیارپوری
عمران پرتاپ گڑھی کا شمار مشاعروں کے معروف اور مقبول شعرا میں ہوتا ہے، ان کی شہرت وہاں وہاں ہے جہاں جہاں اردو بولی یا سمجھی جاتی ہے۔ لیکن شہرت و مقبولیت کے باوجود مشاعروں میں شرکت کرنے والے شعرا جن کی شاعری اردوادب کے زمرے میں آتی ہے عمران پرتاپ گڑھی ان کے ہم پلہ نہیں ہیں۔ دراصل ان کی شاعری اردو بولنے والے عوام کی شاعری ہے جوان کی شہرت کا سبب ہے۔ خوبصورت لب ولہجہ کے شاعر عمران پرتاپ گڑھی 6 اگست 1987ء کو اتر پردیش کے ضلع پرتاپ گڑھ میں پیدا ہوئے۔
آپ نے الہ آباد یونیورسٹی سے ہندی ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 2008ء سے مشاعروں اور کویُ سمیلن میں حصہ لینا شروع کیا – اپنی احتجاجی شاعری، خاص طور پر نظمیں “مدرسے” “ہاں میں کشمیر ہوں” کے ذریعہ شہرت حاصل کی۔
اردو شاعری اور مشاعروں کی روایت صدیوں پر محیط ہے، جہاں ادب، آداب اور نرمی و گفتار کا رواج رہا ہے۔ مگر حالیہ برسوں میں عمران پرتاپ گڑھی نے اس روایت کے برعکس سامعین کو ایسے بے ہنگم اور جارحانہ انداز سے متعارف کروایا ہے جو بہت سے شعروسخن سے تعلق رکھنے والے نیز اردو زبان وادب کی آبیاری کرنے والوں کے نزدیک مشاعروں کی تہذیبی روایات کے منافی ہے۔
اک عام خیال ہے کہ عمران پرتاپ گڑھی اپنی شاعری کو سیاست اور سماجی تنقید کا پلیٹ فارم بناتے ہیں؛ ان کی نظموں اور اشعار میں واضح طور پر ندرت خیال کے بجائے سیاسی مضامین ہوتے ہیں، مثلاً تشدد اور عدم مساوات۔ گرچہ یہ انداز عوامی بیداری کو جنم دیتا ہے، مگر مشاعرے کے روایتی حسن پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ بہت سے ادیبوں اور شعرا کے مطابق وہ محفل کواحتجاجی اجتماع میں تبدیل کر دیتے ہیں
منور رانا جیسے معتبر شاعر نے بھی عمران پرتاپ گڑھی پر مشاعرے کے آداب سے ناواقف ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا:
“عمران پرتاپ گڑھی مشاعرے کے آداب سے واقف نہیں۔ وہ محفل کو مشاعرہ کم، سیاسی جلسہ زیادہ بنا دیتے ہیں۔ مشاعرہ تہذیب کا گھر ہے، نعرے بازی کا نہیں۔”
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ عمران پرتاپ گڑھی کی مقبولیت نے مشاعروں کو تفریحی ایونٹ بنا دیا ہے؛ انہیں مشاعرہ میں “راک اسٹار شاعر” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تجارتی و تفریحی رنگ مشاعروں کی معنویت اور وقار کو متاثر کرتا ہے۔ اسی حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان کا اندازِ پیشکش محفل کے دیگر شعرا کے روایتی احترام کی عکاسی نہیں کرتا؛ وہ مہذب، روایتی تہذیب کے بجائے عوامی جلسے کا انداز اختیار کرتے ہیں جو مشاعرہ کی روح کو زخمی اور ادبی تقدس کو پامال کرتا ہے۔
بعض ناقدین ان کی شاعری کو ضرورت سے زیادہ جذباتی، اشتعال انگیز اور یک رُخی قرار دیتے ہیں۔ ان کے بعض مشاعروں کی ویڈیوز تنازعے کا سبب بھی بنتی ہیں، جنہیں لوگ سماجی تقسیم پیدا کرنے والا سمجھتے ہیں۔ جبکہ مشاعرہ ہمیشہ شعری مکالمہ کا متقاضی رہا ہے، مگر عمران پرتاپ گڑھی کی شاعری میں اکثر یہ پہلو کمزور نظر آتے ہیں۔
عمران پرتاپ گڑھی کی شاعری بنیادی طور پر عوامی شاعری ہے — یعنی وہ شاعری جو گہرائی، فنی پیچیدگی اور عروضی مہارت سے زیادہ ترنم، جذبات کی شدت اور نعرہ زن سامعین پر انحصار کرتی ہے۔ ان کے مداح بڑی حد تک ان کے ترنم کے اسیر ہیں، اور ناقدین کا کہنا ہے: “ان کا ترنم ہی ان کی شاعری ہے” — یعنی اگر ترنم ہٹا دیا جائے تو اشعار کا اثر نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے۔
دوسرےان کا کلام اردوادب کےفنی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا اور بے ترتیبی سی دکھائی دیتی ہے لیکن شعری محاسن کے فقدان کے باوجود وہ عوام میں مقبول رہتے ہیں، کیونکہ ان کا ترنم، آواز اور جذبات کو برانگیختہ کرنے کی ادا سامعین کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، لیکن یہ رجحان مشاعرے کی اعلی اقدار کے منافی اور فنی اعتبار سے ذوق سماعت کو کمزور اور سطحی بنا دیتا ہے، کیونکہ سامعین بھی وہی کلام پسند کرنے لگتے ہیں جس میں فکری مشقت اور شاعری کم اور جذباتیت زیادہ ہو۔
معروف ناظمِ مشاعرہ انور جلال پوری نے کہا تھا:“عمران پرتاپ گڑھی کے ترنم میں کشش ضرور ہے، مگر شاعری میں فنی کمزوریاں بہت ہیں۔ وزن اور بحر کا خیال نہ رکھنے سے کلام مشاعرہ کی فنی روایت کمزور کرتا ہے۔ نعرہ تو ہر شخص لگا سکتا ہے، مگر شعر وہ ہے جو وقت کی آزمائش پر قائم رہے۔”
مزید برآں، ان کی شاعری کو سننے والا اسے یاد نہیں رکھ پاتا، یعنی وہ شاعری جو لمحۂ سماعت میں گونج پیدا کرتی ہے مگر دیرپا اثر چھوڑنے میں ناکام رہتی ہے۔ دوسرے ان کی محرومی یہ ہے کہ ان کے سرماۓ میں ایسے اشعار نہیں جو “سگنیچر لائن” بن کر زندہ رہ سکیں — نہ کوئی ایسا مصرعہ جو زبانِ عام پر آ جائے، نہ کوئی ایسا شعر جو کلام کی پہچان بن جائے۔ شاعر وہ ہوتا ہے جسے اس کا ایک شعر بھی امر کر دیتا ہے، مگر عمران پرتاپ گڑھی کا کلام اس بنیادی معیار سے پست محسوس ہوتا ہے۔
یہ تمام عناصر مل کر ان کی شاعری کو وقتی تاثر تک محدود کر دیتے ہیں اور فنی میراث کے لیے خالی چھوڑ دیتے ہیں۔ عمران پرتاپ گڑھی کی شہرت بہت حد تک سوشل میڈیا اور بڑے عوامی ہجوم پر قائم ہے؛ جس نے کلام کی گہرائی کو پس پشت ڈال کر فوری تاثر، سیاسی پیغام اور نعرہ باز شاعری کو زیادہ نمایاں کیا ہے۔ یہ رجحان روایتی غزل، کلاسیکی نظم اور ادبی باریکیوں کی اہمیت کم کر دیتا ہے۔
نتیجتاً مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران پرتاپ گڑھی نے مشاعروں کو نئی سمت ضرور دی ہے، مگر یہ سمت تہذیبی انحطاط کی طرف بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ سیاسی شاعری، تجارتی انداز، عروضی خامیاں، ترنم پر انحصار، محفل کے آداب سے نا آشنائی، یاد نہ رہنے والی نظمیں اور سگنیچر شعر کی عدم موجودگی — یہ سب مل کر مشاعروں کی قدیم، باوقار روایت کو کمزور کرتے ہیں۔ اسی لیے بیشتر ناقدین سمجھتے ہیں کہ عمران پرتاپ گڑھی نے مشاعروں کی تہذیب کو نئی چمک نہیں بلکہ نیا زوال عطا کیا ہے، اور ان کے اثرات مشاعروں کی روایتی تہذیب کو فنا کے قریب لے جا رہے ہیں بشکریہ فیس بک پیج ‘پیاز کےچھلکے‘
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں )








