ہریانہ کے سونی پت میں اتوار کی رات دیر گئے مسلح افراد نے ساندل کلاں گاؤں میں واقع ایک مسجد میں گھس کر وہاں نماز تراویح پڑھنے والوں کو لاٹھی ڈنڈوں سے بری طرح مارا پیٹااور مسجد میں توڑ پھوڑ بھی کی۔دینک جاگرن اور ٹی وی9بھارت کے مطابق حملے میں کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں، جنہیں علاج کے لیے اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔حملہ آوروں کی تعداد پندرہ سے بیس تھی ان میں زیادہ تر نوجوان ہیں۔ اس واقعہ کے بعد گاؤں کا ماحول کشیدہ ہو گیا، واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس موقع پر پہنچ گئی اور بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات کر دی اور معاملے کی جانچ شروع کر دی گاؤں میں کشیدگی کا ماحول ہے۔ معلومات کے مطابق حملہ آوروں نے مسجد پر اچانک حملہ کر دیا
للن ٹاپ نے آج تک سے جڑے پون راٹھی کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ یہ معاملہ سونی پت کے سندل کلاں گاؤں کا ہے۔ یہاں مسلم کمیونٹی نے گاؤں میں نماز پڑھنے کے لیے ایک چھوٹی مسجد بنائی ہے۔ الزام ہے کہ رات گئے نماز ادا کرنے والے نمازیوں پر 15 سے 20 مسلح افراد نے حملہ کیا۔ الزام ہے کہ حملہ آوروں نے مسجد میں بھی توڑ پھوڑ کی۔ حملہ کرنے والے کچھ نوجوانوں کی تصویریں بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ ان میں نوجوان ہاتھوں میں لاٹھیاں اور سلاخیں لیے گاؤں کی گلیوں میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ مبینہ طور پر یہ تمام نوجوان گاؤں کے ہی بتائے جا رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک حملے کی وجہ سامنے نہیں آئی ہے۔مسجد کےمام محمد کوثر نے صندل کلاں مسجد میں آج تک کو بتایا کہ’’ہمارا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ رمضان چل رہا ہے۔ ایسے میں ہم نماز پڑھ رہے تھے۔ اسی دوران گاؤں کے کچھ نوجوان مسجد میں داخل ہوئے اور ہم پر حملہ کیا۔ اس حملے کے دوران خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ حملے میں کئی لوگ شدید زخمی ہوئے ہیں۔
اطلاع ملتے ہی سونی پت کے بڑی انڈسٹریل ایریا تھانے کی پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ زخمیوں کو سونی پت کے سول اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔ پولیس حکام کے مطابق 18 نامزد افراد سمیت 19 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے اب تک 16 نوجوانوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ پولیس ان تمام لوگوں سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ وہیں سونی پت کے پولس کمشنر بی ستیش بالن پیر کو سندل کلاں گاؤں پہنچے۔انہوں نے کہا کہ شرارتی عناصر کو کسی بھی صورت میں بخشا نہیں جائے گا۔ گاؤں میں پولیس کی تعیناتی ہوگی۔ واقعہ کی بہت سنجیدگی سے تحقیقات کی جارہی ہے