تحریر:سبیسچن اشر
مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑے میوزک فیسٹیولز میں سے ایک سعودی عرب میں ہو رہا ہے۔ تقریب کے منتظمین نے ریاض کے گرد و نواح میں ہونے والے اس ایونٹ کے دوران جنسی اور دوسری طرح کی ہراسانی روکنے کے لیے اضافی اقدامات کا وعدہ کیا ہے۔
سعودی عرب میں اب بڑے پیمانے پر تفریحی تقاریب اکثر دیکھنے میں آتی ہیں۔ مگر مقامی اور غیر ملکی خواتین کی جانب سے ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ انھیں یہاں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کے پاس کچھ واقعات کے شواہد بھی ہیں۔
ان تقاریب کے بعض مناظر اب بھی غیر معمولی لگتے ہیں۔ ایسا ملک جہاں چند سال قبل تک عوامی مقامات پر موسیقی متنازع تھی یہاں اب رات بھر بلند آواز میں میوزک فیسٹیول ہوتا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد اس میں شرکت کرتی ہے۔ ایم ڈی ایل بیسٹ ساؤنڈ سٹرام نامی اس تقریب میں چار روز تک لاکھوں کی تعداد میں لوگ دنیا کے معروف ڈی جیز کو دیکھنے آئے۔
اس تقریب میں مرد اور خواتین ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل سکتے تھے۔ ماضی کے سعودی عرب میں ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔
دنیا کے مشہور پرفارمرز کے لیے سعودی عرب آنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا اور انھوں نے ادھر آنے سے پہلے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ بھی دیکھا ہوگا۔ سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب آنے والے پرفارمرز نے جابر حکومت کی مدد کی ہے تاکہ ان کی ساکھ بہتر دکھائی جاسکے۔
لیکن پرفارمر وہ واحد افراد نہیں جو ان تقاریب پر جانے سے کتراتے ہیں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ ریاض اور دیگر علاقوں میں ان بڑی تفریحی تقاریب کے دوران خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کے بے شمار واقعات سامنے آئے ہیں۔ گذشتہ برسوں کے دوران ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں مرد خواتین کو چھو رہے ہیں یا دوسرے طریقوں ہراس کر رہے ہیں۔
اس دوران ایم ڈی ایل بیسٹ نے ’رسپیکٹ اینڈ ریسٹ‘ نامی مہم شروع کی ہے تاکہ ان تقاریب کے دوران خواتین کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ اس مہم میں ایسے واقعات کی صورت میں کارروائی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بعض لوگ، جو گذشتہ ماہ ان تقاریب پر گئے تھے، انھوں نے ان کوششوں کو سراہا ہے۔
سنہ 2018 سے سعودی حکام نے ہراسانی کو جُرم قرار دیتے ہوئے بھاری جرمانے اور پانچ سال تک قید کی سزائیں دی ہیں۔
مگر کئی سعودی خواتین نے بی بی سی سے رابطہ کر کے بتایا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں۔ انھوں نے اپنا موقف دیتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط رکھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بڑے انٹرٹینمنٹ ایونٹس کے دوران یا تو انھیں خود ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے یا وہ ایسی خواتین کو جانتی ہیں جن سے بدسلوکی کی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ آن لائن ہراسانی کی ویڈیوز پر اکثر صارف خواتین کو ہی اس کا قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ جبکہ سعودی قوانین کے مطابق شکایت کی صورت میں مجرم کے ساتھ متاثرہ خاتون کو بھی سزا ملنے کے امکان ہوتے ہیں۔
ایک دوسری خاتون کا کہنا تھا کہ حکام صرف اسی صورت میں ان اطلاعات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں جب ان واقعات میں کوئی غیر ملکی فرد متاثر ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر متاثرہ خاتون سعودی شہری ہو تو اس پر کم دھیان دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر متاثرہ خاتون غیر ملکی ہو تو اس پر سخت ردعمل اور سزائیں دی جاتی ہیں۔
تیسری خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی خواتین کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس میں ملوث تھیں یا تقریب پر جانے سے وہ بھی اس کی قصوروار ہیں۔ ’اگر نوجوان خواتین ایسے واقعات کی اطلاع دیتی ہیں تو انھیں اپنے خاندان یا برادری کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ حال ہی میں یہ تنبیہ جاری کی گئی ہے کہ تفریحی تقاریب کے دوران موبائل سے ویڈیو بنانا منع ہے۔ ان کا الزام ہے کہ اس طرح خواتین کو روکا جا رہا ہے کہ وہ ہراسانی کے واقعات کے ثبوت جمع نہ کر سکیں۔
’سطحی تبدیلی‘
سعودی عرب کے قائم مقام سربراہ ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے جس میں قدامت پسندی سے رواداری کا معاشرہ تشکیل دیا جا رہا ہے اور ایسے میں اس نوعیت کے واقعات ناگزیر ہیں۔ اس تبدیلی کی مثال وہ اس طرح دیتے ہیں کہ اب سڑکوں پر سماجی رویوں کو دیکھنے کے لیے پولیس اہلکار مامور نہیں کیے جاتے۔
تبدیلی کی اس رفتار کو تیز کیا گیا ہے تاکہ سعودی شہزادے کے ویژن 2030 منصوبے کی تکمیل ہوسکے۔ اس منصوبے کا مقصد سعودی معیشت کا تیل پر انحصار کم کرنا اور معاشرے کو نوجوانوں کی توقعات کے مطابق ڈھالنا ہے۔
محمد بن سلمان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی اب بھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک یہ تبدیلیاں ’نارمل‘ نہیں بن جاتیں تب تک لوگوں کو صبر سے کام لینا ہوگا۔
مگر بی بی سی سے رابطہ کرنے والی سعودی خواتین نے سوال اٹھایا ہے کہ آیا یہ منصوبہ حقیقت میں بھی اتنا ہی جامع ہے اور اس میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے خدشات اور امیدوں کو اب بھی سطحی انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق ہراسانی کا مسئلہ اس کی ایک مثال ہے جس کی وجہ سے سعودی خواتین ایسی تقاریب میں حصہ نہیں لے پاتیں جو دنیا بھر کے سیاحوں اور انفلوئنسرز کے لیے تو دستیاب ہیں لیکن سعودی عرب کے اپنے شہری ان سے محروم ہیں۔
(بشکریہ: بی بی سی)